|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ممبرسنٹرل کمیٹی چیئرمین جاوید بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں شعبہ صحت کرپشن گاہ بن چکاہے بلوچستان بھرکے تمام ہسپتالوں میں سہولیات کافقدان ہے کوٹہ کے مطابق دوائیاں عوام تک پہنچ ہی نہیں پاتا جس کا ثبوت سول سنڈیمن ہسپتال کوئٹہ بی ایم سی سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ ان کے سامنے میڈیکل سٹریٹس ہے۔

جس میں سول ہسپتال وبی ایم سی کے مریضوں کے تیماردارکی نولہ تک خود خریدتے ہیں عوام کاکوئی پرسان حال نہیں کیونکہ کروڑوں روپے کے دوائی کے مد میں بجٹ کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا طبقہ کس طرح میڈیکل ادویات کی ترسیل پرقابض ہے یہ کوئٹہ شہرکے حالات ہیں جہاں طب کا شعبہ سفید ہاتھی بن جعلی ادویات فراہم کرنے والے میڈیکل اسٹورزپرادویات کی کمزورلیبل دوائیاں فروخت کررہے ہیں۔

سول ہسپتال کوئٹہ کی ادویات کی بجٹ سب سے زیادہ ہے جبکہ او پی ڈی تعدادکوتودکھایاجاتاہے لیکن یہ تمام ادویات پرائیویٹ اسٹورزجناح روڈ وملحقہ میڈیکل اسٹوروں سے خریدلیاجاتاہے وگرنہ جناح روڈ پرلاکھوں روپے کرایہ دینے والے سینکڑوں میڈیکل اسٹورزمیں روزبروز اضافہ نہیں ہوتاشعبہ صحت کرپشن کاسب سے بڑاکارخانہ بن گیاہے کیونکہ سول ہسپتال اوربی ایم سی ودیگرہسپتالوں میں دوائی ملنانا ممکن ہے۔

کہتے کہ دوائیاں ختم ہوگئے ہیں جبکہ سالانہ ریلیف اتنا زیادہ ہے کہ مریض کم پڑتے ہیں اورایک سرنج سے لیکرروئی تک خریدناپڑتاہے اس بابت طریقہ تبدیل کیاجائے تمام دوائیوں کوشعبہ صحت کے ضروریات کے مطابق ترتیب دیاجائے اگرپوراسال نہیں تو چھ ماہ کیلئے ہسپتال لے مریض میڈیکل سے دوائی نہ لے یہ توتعجب خیزہے کہ رٹ کادعویٰ حکومت کاہے جبکہ ان کی حیثیت کرایہ پرفارمیسی سرٹیفکیٹ منسلک کرنیوالامیڈیکل اسٹورزتمام میڈیکل اسباب سپلائی کرسکتا ہے۔

اس ضمن میں صوبائی اسمبلی کے ممبران ایک عوام دوست طریقہ علاج کیلئے پیش رفت کریں تاکہ عوام کوصحت کی سہولیات ان کے بنیادی حقوق کے تحت سرکاری ہسپتالوں سے میسررہیں یہ تو شہرقریب زرغون روڈ ہسپتال ہیں باقی اضلاع وتحصیل گائوں میں توڈاکٹرحاضرہی نہیں اور نہ انتظامیہ کے پاس ان کومانیٹرکرنے کاوقت ہے بس دوائی ضلعی ہیڈکواٹرسے حاصل کرتے ہی تقسیم کیاجاتاہے۔

آپس میں اورجس گاں کاشعبہ سے وابستہ ملازم ہواتوشایدسرکاری ادویات کے کاٹن وغیرہ ان کے ہاں گندگی کے ڈھیرپرملے ورنہ نہ دوائی نہ ڈاکٹراورنہ علاج میسرہے ان ادویات کیلئے خصوصی آڈٹ کمیٹی بناکرتحقیقات کیاجائے کہ سالانہ جن لوگوں کے نام دوائی کاپرچھی جاری ہواہے اس میں حقیقت بھی ہے یابرائے نام اوپی ڈی کیاجارہاہے۔