الیکشن کمیشن نے بلوچستان سے سینیٹ امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی، فہرست الیکشن کمیشن کی جانچ پڑتال اور الیکشن ٹریبونل کے فیصلوں کے بعد جاری کی گئی، جنرل نشستوں کیلئے سب سے زیادہ امیدوار بلوچستان عوامی پارٹی سے ہیں جن میں آغا احمد عمر احمدزئی ، میر سرفرازبگٹی ، منظور کاکڑ ، ستارہ ایاز اور عبدالخالق اچکزئی جنرل سیٹوں کے امیدوار ہیں ، JUI کی طرف سے مولانا عبدالغفور حیدری ، پشتونخواہ میپ کے عثمان کاکڑ، میر اسرار زہری BNP عوامی ، ANP سے ارباب فاروق کاسی ، قاسم رونجھو BNP مینگل سے اور محمد جواد جمہوری وطن پارٹی کا نام حتمی طور پر فہرست میں شامل ہے ۔
PTI بلوچستان کے صدر یار محمد رند کے فرزند سردار خان رند اور عبدالقادر آزاد حیثیت سے جنرل نشست کیلئے میدان میں ہیں ، ٹیکنوکریٹ کی 2 سیٹوں کیلئے چار امیدواروں کے نام بھی حتمی طور پر منظور ہوئے، ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر JUI کے ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ اور BNP کے ایڈووکیٹ ساجد ترین جبکہ BAP کے سعید ہاشمی اور نوید جان بلوچ کے نام شامل ہیں، خواتین کی 2 نشستوں کیلئے 9 امیدواروں کے نام بھی حتمی فہرست میں شامل ہیں، BAP سے ثمینہ ممتاز زہری، ANP سے بینش سکندر مسیح ، JUI سے آسیہ ناصر ، BNP مینگل سے طاہرہ جتک ، ہزارہ ڈیموکریٹک عاطفہ علی کے نام فائنل ہوئے ۔
جبکہ نسیمہ احسان کا نام خواتین کی نشست پر آزاد حیثیت سے منظور ہوا ہے جبکہ اقلیت کی ایک نشست کے لئے بلوچستان سے پانچ امیدوار میدان میں ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی کی طرف سے خلیل جارج اور دنیشن کمار ، JUI کی طرف سے ہیمن داس ، ANP سے بینش سکندر مسیح جبکہ BNP کے سنیل کمار کے نام بھی حتمی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کیلئے جاری کردہ فہرست سے ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ جنرل نشست کی 7 نشستوں پر باپ 5 امیدوار میدان میں اتار رہی ہے یعنی اپنے حکومتی اتحاد میں سے کسی 2 کو صرف سپورٹ کرسکتی ہے ۔
جس میں ابہام ہے کہ کس کے ساتھ باپ اتحادی ہے۔ پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر نے تو سینیٹ انتخابات پر کھل کر خلاصہ کیا ہے کہ انہیں وزیراعظم خود اہمیت نہیں دے رہے اور سردار یار محمد رند اپنے فرزند کو آزاد حیثیت میں میدان میں اتار رہے ہیں، یہی صورتحال دیگر حکومتی اتحادی جماعتوں کی ہے جنہوں نے اپنے اپنے امیدوار سامنے لائے ہیں مگر اس تمام صورتحال نے ایک بار پھر حکومتی اتحاد کے دعوئوں کی نفی کردی ہے اور آنے والے دنوں میں بلوچستان میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کے امکانات کو اس تناظر کے لحاظ سے رد نہیں کیا جاسکتا جبکہ اس کا فائدہ اپوزیشن کسی بھی موقع پر اٹھاسکتی ہے سینیٹ انتخابات ہی نئی تبدیلی کی سمت کا تعین کریں گی۔