سینیٹ کی دو نشستوں پر قومی اسمبلی میں الیکشن ہو گا اورایک نشست خالی ہونے کے باعث ارکان کی مجموعی تعداد341 ہے۔سینیٹ کی جنرل اور خواتین کی مخصوص نشست کے لیے حکومت اور اپوزیشن میں ون ٹو ون مقابلہ ہے اور کسی بھی امیدوار کو جیتنے کے لیے171 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔حکومتی اتحاد کو اس وقت قومی اسمبلی میں181 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے157 ایم این ایز ہیں۔قومی اسمبلی میں حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے7، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ پانچ ارکان ہیں۔
جی ڈی اے کے تین اورعوامی مسلم لیگ کا ایک ایم این اے ہے جبکہ دو آزاد اور جے ڈبلیو پی کا ایک رکن بھی حکومت کے ساتھ ہے۔اپوزیشن اتحاد کے پاس 160 ایم این ایز ہیں۔ مسلم لیگ ن کے83 اور پیپلز پارٹی کے55 ارکان ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے15 اور بی این پی مینگل کے چار ایم این ایز ہیں۔ دو آزاد اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے۔اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے نامزد 5 امیدوار دستبردار ہوگئے ہیں۔پاکستان ڈیموکریٹک کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی اور پاکستان تحریک انصاف کے حفیظ شیخ ہیں۔
خواتین کی نشست پر فرزانہ کوثر اور فوزیہ ارشد مدمقابل ہوں گی۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس میں وقت گزارنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں وہ ارکان قومی اسمبلی سے ملاقاتیں کریں گے۔ وزیراعظم پارلیمنٹ ہاؤس میں اپنے چیمبر میںارکان اسمبلی کے مسائل سنیں گے اور خدشات دور کریں گے۔ وزیراعظم پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی سے ملیں گے پارٹی نے اس سلسلے میں ارکان کواسلام آباد میں موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔اسلام آباد کی جنرل نشست پر حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ کی توقع ہے۔
کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ رابطے تیز کردیئے ہیں ۔پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم کے قائدین سے ملاقات کی ہے اور ایم کیوایم کو یوسف رضاگیلانی کی حمایت کے حوالے سے دعوت بھی دی ہے ایم کیوایم قائدین کی جانب سے کہاگیا ہے کہ کراچی کے مسائل جو حل کرے گا ہم اس کے ساتھ جائینگے اور ہمارے ووٹ جیت کیلئے فیصلہ کن ثابت ہونگے۔ بہرحال دنگل تین مارچ کو سجے گا مگر اس سے قبل ہی ملاقاتوں میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے سیاسی پارہ ہائی ہوتا جارہا ہے کیونکہ یہ نشست حکومت ا وراپوزیشن دونوں کیلئے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔
جو اس معرکہ کو سرکرے گا وہ نہ صرف سینیٹ انتخابات کی بازی لے جائے گا بلکہ مستقبل کی سیاست میں بھی اس کا سکہ چلے گا۔البتہ یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ پلڑا کس کا بھاری ہوگا۔ دونوں طرف سے رابطے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ جاری ہیں اندرون خانہ کیا توڑ جوڑ ہوگا یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے کیونکہ اوپن بیلٹ اور خفیہ ووٹنگ کے حوالے سے بھی حکومت اوراپوزیشن کے درمیان جنگ چل رہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کا اس حوالے سے فیصلہ بھی آچکا ہے۔ بہرحال ہمارے ہاں ہارس ٹریڈنگ اور وفاداریاں تبدیل کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔
اگر سیاسی نظریاتی وابستگیاں ہوتیں تو شاید آج ووٹ کاسٹنگ کے معاملے پر اتنا شور شرابہ دیکھنے کو نہ ملتا ۔ بہرحال سینیٹ انتخابات پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں نتائج جو بھی سامنے آئیں، سیاسی ماحول گرم ہی رہے گا شاید اس کے بعد سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھ جائے۔