کوئٹہ: سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ سی پیک کے بلوچستان میں کوئی ثمرات دکھائی نہیں دے رہے ہیں ، انہیں اپنے ڈھائی سالہ وزارت اعلیٰ میں چین کے ساتھ بلوچستان سے متعلق ہونے والے معاہدوں کا کوئی علم نہیں تھا ، چین کے ساتھ معاہدوں کے بارے میں لاعلم رکھنے پر انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نوا زشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ چین کے دوروں پر جانا چھوڑ دیا تھا ۔
چین کے بلوچستان میں مفادات ہیں، ان کے دور حکومت میں کرائے گئے سینیٹ یا بلدیاتی انتخابات کے علاوہ صوبائی ترقیاتی بجٹ میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی، بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں اور مذہبی جماعتوں نے سینیٹ انتخابات میں کبھی اپنا ووٹ فروخت نہیں کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز عرب خبر رساں ادارے کو دیئے گئے۔
ایک انٹرویو میں کیاہے ۔بلوچستان کی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے اڑھائی سالہ وزارت اعلی میں چین کے ساتھ بلوچستان سے متعلق ہونے والے معاہدوں کا کوئی علم نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے ساتھ چین کے دوروں پر جانا بھی اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ معاہدوں کے بارے میں لاعلم رکھا جاتا تھا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مطابق سی پیک کے بلوچستان میں کوئی ثمرات دکھائی نہیں دے رہے۔ بد قسمتی سے ان معاہدوں پر پرویز مشرف دور میں دستخط ہوئے تھے جس میں لکھا گیا تھا کہ 93فیصد آمدن چین اور سات فیصد آمدن وفاقی حکومت کو ملے گی اوربلوچستان اور گوادر کے عوام کو اس آمدن کی تقسیم میں کچھ نہیں ملے گا۔ان کا کہنا تھاکہ بحیثیت قوم ہمارے خدشات ہیں کہ گوادر میں اتنی وسیع پیمانے پر آباد کاری ہوگی ۔
جس سے بلوچ یا گوادرکے لوگ اقلیت میں آجائیں گے۔ ہمارا شروع سے ہی یہ مطالبہ تھا کہ سی پیک کے تحت آمدنی، سرمایہ کاری اور ملازمتوں میں بلوچستان اور گوادر کا حصہ ہونا چاہیے لیکن ایسٹ بے شاہراہ اور گوادر ایئر پورٹ کے منصوبے کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ملنے والے پیسوں اور منصوبوں میں بلوچستان کو کچھ نہیں ملا اور وہ پیسے باقی صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں خرچ ہوئے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ انہیں علم نہیں کہ چین بلوچ مسلح تنظیموں کے ساتھ کوئی مذاکرات کر رہا ہے اور نہ ان کے دور حکومت میں چین نے ایسی کوئی خواہش ظاہر کی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ چین کے بلوچستان میں مفادات ہیں۔بلوچستان کی معدنیات کی کانوں میں وہ کام کر رہا ہے۔ یہاں کا سب سے بڑا گوادر پورٹ اس کے پاس ہے ۔
چین کا سی پیک کے حوالے سے بھی لمبا چھوڑا بڑا پروگرام ہے اس لیے چین کے ضرور بلوچستان میں کچھ سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک مفادات ہوں گے۔ایک اور اس سوال پر سابق وزیراعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ جلا وطن بلوچ رہنما مذاکرات کے لیے بالکل سنجیدہ تھے۔ مذاکرات شروع کرنے کے دو یا تین مہینے بعد ہماری حکومت ختم ہوئی۔ بعد میں آنے والی حکومت نے اس مسئلے میں دلچسپی لینا چھوڑدی۔
سول سائیڈ میں نواز شریف اور ہماری صوبائی حکومت کی خواہش تھی کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھی اس زمانے میں تعاون اور خواہش تھی۔ میرے خیال میں میرے جانے کے بعد چیزیں بدل گئیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور حکومت میں کرائے گئے سینیٹ یا بلدیاتی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس وقت سالانہ صوبائی ترقیاتی بجٹ( پی ایس ڈی پی)میں بھی کوئی کردار نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا اگر کوئی کردار تھا تو وہ صرف امن وامان کے حوالے سے تھا ۔
کیونکہ تب امن وامان کی صورتحال بگڑی ہوئی تھی۔سابق وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی کبھی نہیں کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہیں۔ سب ٹھیک پاکستان میں کبھی نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ جونہی ہماری حکومت بنی تیسرے یا چوتھے دن نواز شریف اپنے ساتھ چین کے دورے پر پر لے گئے۔ باقی دوروں میں ان کے ساتھ نہیں تھا ۔
اس کے بعد ایک بار شہباز شریف کے ساتھ چین گیا لیکن بعد میں ان کے ساتھ چین جانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ آپ لوگ چین کے ساتھ جو معاہدے کررہے ہیں اس کا مجھے پتہ نہیں اس لئے میں آپ کے معاہدوں کا حصہ نہیں بنوں گا۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ یہ معاہدے آپ کے دور میں ہوئے لیکن ہم نے بلوچستان کے ہرمسئلے پر آواز اٹھائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف حکومت اور اپنے دو اڑھائی سالہ وزارت اعلی میں چین کے ساتھ بلوچستان میں مواصلات اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں کیا معاہدے ہوئے مجھے کم از کم پتہ نہیں ہے۔بلوچ قوم پرست رہنما ء نے کہا کہ لاپتہ افراد ایک انسانی مسئلہ ہے اور پچھلے کئی سالوں میں بلوچستان میں یہ مسئلہ روز بروز گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا شروع سے ہی موقف ہے کہ اس شورش کا واحد علاج مذاکرات ہے۔
مذاکرات کے بغیر شورش ختم نہیں ہوتی۔ لاپتہ افراد کو قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی جیسے بنیادی سوالات کو آگے لے کر جا رہی ہے۔ بلوچستان میں راتوں رات پارٹیاں بنتی ہیں۔ ہم لوگ جو مظلوم اقوام یا مظلوم طبقات ہیں۔ ان کی پناہ جمہوریت میں ہے جمہوریت ہوگی تو ہماری آواز کوئی سنے گا۔
جمہوریت نہیں ہوگی تو خاص طور پر بلوچ، پشتون اورسندھی اقوام کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔سابق وزیراعلی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں اور مذہبی جماعتوں نے سینیٹ انتخابات میں کبھی اپنا ووٹ فروخت نہیں کیا۔ جن جماعتوں نے ووٹ فروخت کیے ہیں جن کا جھکا ہمیشہ حکومتوں کی طرف ہوتا ہے۔ مختلف جماعتوں میں ان کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر ہوتی ہے۔
وہی ووٹ بیچتے ہیں۔ اس دفعہ بھی وہی ہوگا۔ اپوزیشن کے ووٹ فروخت نہیں ہوں گے۔مستقبل میں باپ جیسی جماعتوں کے ساتھ حکومت کے لیے اتحاد تشکیل دینے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب تک تین تین یا چار چار جماعتیں اکٹھی نہیں ہوتیں تو حکومتیں نہیں بنتیں۔ مخلوط حکومت بنانا یہاں مجبوری ہے۔
اگر بڑی جماعتیں الیکٹ ایبلز کو نہ لیں تو عا م آدمی ان کو شکست دے دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں خصوصا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر ہم متواتر دبا ڈال رہے ہیں کہ آپ الیکٹ ایبل کے چکر سے نکل جائیں۔ میرا اپنا 30، 35 سال کا تجربہ ہے کہ جب ہم اشرافیہ کے خلاف کام کرتے ہیں اور وہ شکست کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کو پیپلز پارٹی یا ن لیگ سہارا دے دیتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ انہیں عمران خان کی جانب سے یوٹرن لینے پر کوئی اعتراض نہیں، سیاست میں یو ٹرنز ہوتے ہیں لیکن عمران خان سنجیدہ اور سلجھے ہوئے سیاستدان کی طرح عمل نہیں کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک وزیراعظم کہیں کہ میں اپنے مخالفین سے ہاتھ ملانا اور بات کرنا بھی گوارہ نہیں تو یہ جمہوریت کے لیے بہت مشکل صورتحال ہے۔