ملک بھر میں سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ نظریں اسلام آباد کی نشست پر لگی ہوئی تھیں اور یہی نتیجہ ملک میں آنے والی سیاسی منظر نامہ کو واضح کردے گا کہ کتنی بڑی تبدیلی آنے کا امکان ہے۔ اس نشست کیلئے حکومت اوراپوزیشن دونوں نے اپنی پوری طاقت لگائی، اسلام آباد میں مسلسل سیاسی بیٹھک لگائے گئے ،رات دیر تک اجلاسوں کے دور چلے۔ حکومت کی جانب سے اس نشست پر عبدالحفیظ شیخ جبکہ اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ امیدوار سابق وزیراعظم پیپلزپارٹی کے رہنماء یوسف رضا گیلانی تھے۔
اسلام آباد کا معرکہ یوسف رضا گیلانی نے مارکر سب کو حیران کر دیا اور اپوزیشن حلقوں میں اس وقت زبردست خوشی پائی جارہی ہے جبکہ حکومتی حلقوں میں شدید مایوسی دیکھنے کو مل رہی ہے کیونکہ اسلام آباد کی جنرل نشست پر یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے۔ ریٹرننگ افسر کے مطابق 340 ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے یوسف رضا گیلانی نے 169 ووٹ حاصل کیے جبکہ حفیظ شیخ نے 164 ووٹ حاصل کیے ۔یوسف رضا گیلانی حفیظ شیخ کو پانچ ووٹوں سے شکست دے کر اسلام آباد سے سینیٹر منتخب ہوگئے۔ ریٹرننگ افسر کے مطابق 7 ووٹ مسترد ہوئے۔
حکومت کی جانب سے دوبارہ ووٹنگ کرائی گئی تاہم دوبارہ ووٹنگ میں بھی یوسف رضا گیلانی کامیاب قرار پائے۔اسلام آباد سے خواتین کی نشست پر ن لیگ کی فرزانہ کوثر اور تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد کے درمیان مقابلہ تھا۔ اس مقابلے میں تحریک انصاف کی فوزیہ نے ارشد نے 174 ووٹ حاصل کیے اور سینیٹر منتخب ہوگئیں۔سینیٹ انتخابات کا سب سے دلچسپ اور بڑا معرکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جنرل نشست پر تھا جہاں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔
اس نشست کیلئے ووٹنگ قومی اسمبلی میں ہوئی۔حکومتی اتحاد کے پاس 181 جبکہ اپوزیشن نشستوں پر موجود جماعتوں کے پاس 160 نشستیں تھیں۔قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبرچترالی کے سوا تمام 340 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا۔ بیلٹ پیپر پر دستخط کی وجہ سے شہریار آفریدی کا ووٹ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔دوسری جانب حکومت نے سینیٹ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کی جیت کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گِل کا کہنا تھاکہ غیر حتمی طور پر 7 ووٹ مسترد ہوئے ہیں۔
اور 5 ووٹ کا فرق ہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ ابھی اس نتیجہ کو چیلنج کریں گے۔ بہرحال نتیجہ کو چیلنج کرنا حکومت کا آئینی حق ہے مگر جس طرح سے یہ نشست اپوزیشن نے نکالی یہ حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہورہی ہے کیونکہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس نشست کے بعد اپوزیشن اب ان ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے تیاری پر غور کرے گی اور آئندہ کی حکمت عملی پر اپوزیشن کی بڑی بیٹھک لگے گی جس میں حکومت پر دباؤ بڑھانے اور اِن ہاؤس کے حوالے سے تمام پہلوؤں پر غور کیاجائے گا۔
البتہ یہ اسی طرح کا ہی معاملہ ہوا جب چیئرمین سینیٹ کی نشست پر اپوزیشن کے امیدوار میرحاصل خان بزنجو کو شکست ہوئی اور میرصادق سنجرانی کامیاب ہوگئے تھے اس دوران سب کو دھچکا لگا تھا کہ اپوزیشن کے پاس تعداد ہونے کے باوجود کس طرح سے شکست ہوئی اور کون سے ارکان نے اپنے ہی جماعت سے منحرف ہوکر حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کو ووٹ دیا جس کا آج تک کسی کو علم نہیں۔ اسی طرح موجودہ صورتحال نے ماضی کو دہرایا ہے اور اب حکومتی حلقوں کو بھی یہی فکر لگی ہے کہ ان میں سے کون سے ارکان ہیں جنہوں نے اپوزیشن کو ووٹ دیا یا پھر کسی اور طریقے سے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں۔
بہرحال یہ حکومت کیلئے ایک الارمنگ صورتحال ہے اب حکومت بھی اس شکست کے بعد حکمت عملی اپنائے گی مگر آنے والے دن ملکی سیاست میں ایک نیا موڑ پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں جس کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا۔