اسلام آباد کی نشست پر اپوزیشن کی کامیابی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کافیصلہ کیا ہے ، اس کی بنیادی وجہ وزیراعظم عمران خان نے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کو قرار دیا ہے کہ اسلام آباد کی نشست پر عبدالحفیظ شیخ کو شکست دینے کیلئے ممبران کو خریدا گیا اور باقاعدہ بولی لگائی گئی ۔ عمران خان نے یہ بھی کہہ دیا کہ ان کے ہی جماعت کے 15ارکان نے پیسے لیکر اپوزیشن کو ووٹ دیا اگر مجھ پر اعتماد نہیں تو وہ پارلیمنٹ میں آکر عدم اعتماد کااظہار کریں ،میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپوزیشن بنچ پر بیٹھ جائونگا۔
اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے یہ کہا کہ جب پارلیمنٹ میں آئے تو یہاں پتہ چلاکہ ممبران کو ووٹ کیلئے خریدا جاتا ہے جو مقدس ایوان کی توہین کے مترادف ہے کیونکہ یہی ارکان وزارتوں کے اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہیں جب اس طرح کی کرپشن ہوتی ہے تو کس طرح سے ملک ترقی کرسکتا ہے اور ہم مسائل اور چیلنجز کامقابلہ کیسے کرینگے۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان یہ بات اب کہہ رہے ہیں مگر جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران صادق سنجرانی کے پاس اکثریت نہ ہونے کے باوجود جیت کاتاج ان کے سرسج گیا تھا۔
تو اس دوران کیا ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی تھی پھر کیسے ان کے حق میںزیادہ ووٹ پڑے، کیا وہ ضمیر کی آواز تھی اور جب پی ٹی آئی حکومت سازی کرنے جارہی تھی پنجاب اور مرکز میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کیلئے کس طرح وسائل استعمال کئے گئے یہ بھی سب کے سامنے ہے ۔یہ صرف پی ٹی آئی کے متعلق بات نہیں ہورہی ہے بلکہ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے ۔عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ لینے کیلئے کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ تو عام پاکستانی کو بھی معلوم ہے کیونکہ عوام اتنی باشعور ہوچکی ہے کہ اتنے دھکے کھانے کے بعد وہ اس نظام سے براہ راست واقف ہے کہ ہر کام نکالنے کیلئے انہیں رشوت دینی پڑتی ہے۔
ملازمت سے لیکر بنیادی سہولیات حاصل کرنے کیلئے انہیں محکموں میںجاکر رشوت دینی پڑتی ہے ظاہر ہے کہ یہ دونمبری کے کام وزیروں کی ناک کے نیچے ہوتے ہیں، فائلیں صرف چپراسی سے ہوتے ہوئے وزیر صاحبان تک کس طرح پہنچتے ہیں عوام اس سے مکمل طورپرآگاہ ہے اس لئے یہ کہنا کہ پارلیمنٹ میںارکان ضمیر کے مطابق اپنے فیصلے کرتے ہیں یا پھر پارٹی کے نظریاتی ورکرز کی حیثیت سے وہ مکمل ایمانداری سے کام کرتے ہیں ،درست نہیں ہے ؟ جب پارٹی کے اندر ہی ٹکٹ کے حصول کیلئے پیسے دیئے جاتے ہیں۔
تو ملک میں تبدیلی اور عوامی مفادات کی خاطر قربانی کے نظریہ کی باتیں کھوکھلے دعوؤں کے سوا کچھ نہیں ۔ پاکستان میں آج جس طرح کے بحرانات سر اٹھارہے ہیں ان کی بنیاد ہی کرپشن ہے اور دہائیوں سے چلتے اس سلسلے کو کس طرح سے روکا جاسکتا ہے جبکہ آج بھی ووٹ حاصل کرنے کیلئے پارٹیاں وسائل کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کہ کس طرح سے ارکان کو اپنی طرف کھینچا جائے۔ یہ ہمارے نظام کا بھیانک کا چہرہ ہے پہلے بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں خود احتسابی اور ایمانداری کے ساتھ سیاست نہیں کرینگی ۔
ملکی سیاسی کلچر جو کرپشن کی وجہ سے سیاہ ہوکررہ گیا ہے وہ صاف نہیں ہوسکتا، جب بھی کسی کو موقع ملے گا وہ گروہی مفادات حاصل کرنے کیلئے کرپشن کا سہارا لے گا۔ وزیراعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ اپنے اتحادیوں سے حاصل کربھی لینگے لیکن کیا ان 15ارکان کیخلاف کارروائی کرکے عوام کے سامنے ان کو آشکار کیاجائے گا؟ اپوزیشن نے بھی اپنے ارکان کیخلاف چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت کوئی کارروائی نہیں کی اور وہ آج تک اپوزیشن کی صف میں موجود ہیں جو بہت بڑی جمہوری تبدیلی کا دعویٰ کررہے ہیں ۔
المیہ یہی ہے کہ عوام کا اعتماد ہی اس نظام سے اٹھ چکا ہے اور وہ اب کسی معجزے کے انتظار میں ہیں ۔ البتہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس میں کوئی بڑی بات سامنے نہیں آئے گی کیونکہ جنہوں نے کل اپوزیشن کوووٹ ڈالا آج وزیر اعظم کو ووٹ ڈالینگے مگر اپوزیشن اس ووٹنگ میںحصہ نہیں لے گی کیونکہ گزشتہ روز انہوں نے اپنے پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا ڈپلومیٹک انداز میں جواب دیا تھا ۔ اسی اداریہ میں اسلام آباد کی نشست کے فیصلے کے بعد کے نتائج پر لکھ دیاگیاتھا کہ ملکی سیاسی منظر نامہ واضح ہوتا جائے گا ۔
اور اب سیاسی پارہ مزید ہائی ہونے جارہا ہے کیونکہ اپوزیشن اس قدر پُراعتماد ہے اور دعویٰ کررہا ہے کہ وہ فیصلہ کرینگے کہ کب عدم اعتماد کی تحریک لائینگے یعنی اس کا فیصلہ پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی جبکہ انہوں نے پہلے پنجاب میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے اس کے بعد مرکز کے حوالے سے فیصلہ کرینگے۔ فی الحال صرف دعوے ہی کئے جارہے ہیں مگر سیاسی بھونچال کے امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتا جیت کس کی ہوگی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔