|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2021

کوئٹہ: بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی وائس چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے آٹھ مارچ خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے اپنے بیان میں بلوچ خواتین سمیت ان تمام خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا جنہوں عملی جدوجہد کا راستہ اپنا کر سماج اور قوموں کی تقدیر بدل ڈالا ہے۔ آج کا دن اْن خواتین کے نام ہے جنہوں نے تمام معاشرتی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے خود کو جدوجہد کا استعارہ ثابت کرنے میں کامیاب کیا۔

اور آج کا دن انھیں خواتین کے نظر کی جاتی ہے۔جنہوں نے بہتر اجتماعی مستقبل کیلئے خود کی جان کا نظرانہ پیش کیا ہے۔مرکزی وائس چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے بیان میں اس دن خاص کی سنگ بنیاد رکھنے والے ان عظیم کرداروں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہمیں ان عظیم جہد کاروں کی یاد دلاتا ہے ۔جنہوں نے ایک صدی قبل اپنے حق کی خاطر اپنے جہدِ مسلسل سے باطل کو ایک اہم پیغام دیا کہ وہ اپنے حق کے لئے کسی بھی قربانی کی دریغ نہیں کریں گے۔

اْن عظیم کرداروں کی جدوجہد کا ہی ثمر ہے کہ آج دنیا میں زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین مردوں کی ہم پلہ ہوکر اپنی ملک و قومی ترقی میں ایک فعال کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔انہوں نے بلوچستان میں خواتین کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بلوچستان کی حالات زار کی وجہ سے مرد و زن دونوں یکساں طور پرذہنی کوفت کا شکار ہے مگر صحت کے شعبوں میں خاص کر خواتین کے لئے کچھ خاص اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی شرح موت کسی سے ڈھکی چپھی نہیں۔

آج بیشتر علاقوں میں چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا علاج و ویکسین نہیں۔ صوبہ کی بدحالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبہ میں ہسپتالوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مریض اکثر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں میڈیکل کے فیسوں میں اضافہ کی وجہ سے وہ اپنے مرض کی تشکیک سے قاصر ہوکر بالآخر اسی مرض میں مستقلی مبتلاء ہوکر اپنی بقیہ زندگی اس زلت بھرے مرض کے ساتھ گزارتے ہے ۔

اس کے ساتھ دوسرے بڑے شعبہ تعلیم میں بھی صورت حال بھی خستہ حالی کا ثبوت پیش کرتی ہے آج حکومتی نا اہلی کی وجہ سے اکثر و بیشتروں اسکولز اور کالجوں کا تصور تک نہیں ہے ۔اسی وجہ سے طلباء محض بنیادی تعلیم یعنی پرائمری تعلیم کے لئے کئی میلوں کا پیدل سفر کرتے ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لئے انہیں اپنے اضلاع سے دور کسی شہر میں جاکر پڑنا پڑتا ہے اسکی علاوہ خواتین کی مسائل کی بھرمار ہے۔

جو بلوچ خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے ۔ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بلوچستان کے مخدوش حالت میں خواتین کو درپیش چیلنجز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ چند عرصوں سے بلوچ طالبات کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم سے دور رکھنے کے لئے مختلف اقدامات کیے گئے جس کی حالیہ مثالوں میں آنلائن کلاسوں کے دوران گرفتاری ،بلوچستان ویڈیو اسکینڈل ایشو اور دیگر اداروں میں خفیہ کیمروں کی موجودگی کے ثبوت ہے۔

جہاں یہ سب خواتین کی تعلیمی میدان میں سرگرمیوں کو پس پشت ڈالنے کے لئے ایسے اقدامات کے گئے ہے اور اسکے فنی اداروں کی کمی بھی بلوچ خواتین کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بلوچستان کے ناگفتہ حالت میں بلوچ خواتین کی ہمت و حوصلہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ صوبہ کی حالت بد سے بدتر ہونے کے باوجود بلوچ خواتین کا سیاسی میدان میں سرگرم ہونا قابل تعریف عمل ہے ۔

بلوچ خواتین کی نام نہاد قبائلی روایت کو توڑ کر موجودہ دور کے تقاضوں کے تحت خود کو ڈھال کر خندہ پیشانی سے مشکل و مصائب کا سامنا کرنا اس بات کا ثمر ہے کہ بلوچستان کے سیاسی میدان مرد و زن دونوں کے لئے یکساں طور پر کھلے ہے جہاں انہیں اپنے صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے جانے کی ضرورت ہے اور خوش بختی کی بات یہ ہے کہ بلوچ خواتین کی سیاسی میدان میں سرگرم عمل کے ساتھ بلوچ طلباء مسائل کی قیادت کرتی نظر آتی ہے ۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے بیان کے آخر میں بلوچ خواتین کو ایک خاص پیغام دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی ناگفتہ حالت اور دیگر چیلنجز کے باوجود بلوچ خواتین کسی بھی علمی و ادبی سرگرمی میں مصروف کار ہے ۔

جو ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ بلوچستان کی سرزمین بانجھ نہیں۔ بلوچستان کی تاریخی پس منظر اور ثقافتی رنگ میں بلوچ خواتین کے کرد ان تمام عوامل کی شاہد ہے کہ بلوچ خواتین کا تاریخ میں نمایاں کردار رہا ہے اس لئے تاریخی کرداروں کو جان لینا بلوچ نیشنلزم کی ضرورت ہے اور اسی فلسفہ کے تحت موجودہ مسائل کی بیخ بینی کرنا بلوچ خواتین کی اہم زمہ داری بھی ہے۔