|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2021

8مارچ کو عالمی یوم خواتین منایاگیا، ملک بھر میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا جن میں خواتین سمیت مردوں کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ گوکہ گزشتہ سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایسے نعرے، پلے کارڈز اور بینرز پر آویزاں کئے گئے تھے جوشدید تنقید کی زد میں رہے اور متواتر اس مسئلہ پر بحث ومباحثہ بھی ہوا اور پوری میڈیا کی توجہ متنازعہ سلوگن اور فریقین کے درمیان جھڑپ پر رہی مگر اصل مسئلہ اس تنازعہ کی وجہ سے بالکل ہی اوجھل رہ گیا۔ بہرحال پاکستان میں خواتین کیلئے مسائل بہت زیادہ ہیں اور متعدد کیسز رپورٹ بھی ہوئے ہیں۔

جن میں خواتین کے ساتھ زیادتی، ہراسمنٹ، کم عمری میں شادی،ونی جیسے سنگین نوعیت کے واقعات تواتر کے ساتھ سامنے آئے ہیں جبکہ اسمبلیوں میں خواتین کے حقوق سے متعلق بلز بڑی تعداد میںپیش ہونے کے ساتھ اکثریت رائے سے منظور بھی ہوئے ہیں مگر افسوس کہ ان پر عملدرآمد سست روی کا شکار رہا ہے اس لئے آج تک خواتین معاشرے میں خود کوبعض جگہوں پر عدم تحفظ کا شکار محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ناروارویوں کی وجہ سے مایوس دکھائی دیتی ہیں اور اسی وجہ سے خواتین کی بڑی تعداد باصلاحیت ہونے کے باوجودمناسب مقام نہ ملنے پر گھروں میں محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔

جس سے معاشرے میں خواتین کی برابری کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوجاتے ہیں ۔اسی طرح جہیز ایک بہت بڑامسئلہ لڑکیوں کیلئے ہے جن کی شادیاں اسی لعنت کے باعث نہیں ہوپاتیں اور بعض نوجوان خواتین ذہنی دباؤ کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں یا پھر جیہز نہ دینے کی وجہ سے سسرالیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے ساری زندگی درد سہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں یا پھر زندگی سے تنگ آکر خود کشی کرتی ہیں ۔ایسا ہی ایک حالیہ واقعہ بھارت کے علاقے احمدآباد کا ہے جہاں عائشہ نامی لڑکی کے سسرالیوں اور اس کے شوہر نے اسے رقم کے تقاضوں پر بہت تنگ کیا۔

جس کے بعد اس نے ندی میںکود کر خودکشی کرلی۔ عائشہ نے خود کشی کرنے سے پہلے اپنے ساتھ ہونے والے رویوں کی تفصیل بیان کی اور ایک درد ناک جملہ استعمال کیا کہ ’’یااللہ مجھے پھر انسانوں کی شکل مت دکھانا‘‘اور اس کے بعد وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔اس واقعے کی ہر سطح پر مذمت کی گئی جبکہ عائشہ کے شوہر کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے کیونکہ عارف سے جب عائشہ نے آخری بار فون پر بات کرتے ہوئے کہی تھی کہ وہ خودکشی کرنے جارہی ہے تو اس کے شوہر نے ویڈیو بنانے کی بات کی اور اس طرح عائشہ نے یہ ویڈیو بناکر اپنے شوہر کو بھیج دی۔

بہرحال اس واقعہ کو یہاں بیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ پاکستان میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے آئے ہیں کبھی سسرال والوں نے اپنی بہوکو آگ لگاکر قتل کیا یا پھر اور طریقے استعمال کئے ۔سوال یہ ہے کہ پھر کیونکر خواتین اپنے حقوق کیلئے سڑکوںپر نہ نکلیں جب ہمارے یہاں قوانین پر عملدرآمد نہیںہوتا، خواتین کو مکمل تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، جہیز سمیت دیگرمسائل سے خواتین کو چھٹکارا آج تک نہیںمل سکا تو ان کا ردعمل فطری ہے اور اس حوالے سے سرکاری سطح پر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ معاشرے کے ہرفرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کہ خواتین کو صرف ایک جنس اور غیرت کے نظریہ سے نہ دیکھے بلکہ اسے اشرف المخلوقات کی حیثیت دینے کے حوالے سے عملی طور پر کردار ادا کرے اور انہیں وہ تمام حقوق دیئے جائیں جو مرد کو حاصل ہیں۔ ہمیں پدر شاہی نظام سے نکلنا چاہئے یہ اکیسویں صدی ہے مرد اورخواتین ایک برابر ہوکر ہی معاشرے میں بہترین کردار ادا کرتے ہوئے ایک ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں یکطرفہ آمرانہ روش اور خواتین کو دیوار سے لگانا سراسر زیادتی ہے۔