|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2021

اسلام آباد: سینیٹ اجلاس پریذائیڈنگآفیسر جاوید عباسی کی زیر صدارت تلاوت قران پاک سے ٹھیک ساڑھے دس بجے شروع ہوا،متعدد کمیٹیوں کی رپورٹس ایوان میں پیش کی گئیں،سینٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اجلاس تھوڑی دیر کے لیے ہو گا،اور ریٹائرڈ ہونے والے ارکان سے اپیل ہے کہ مختصر بات کریں تاکہ سب کو موقع مل سکے ۔ایوان بالا میں سینٹر عتیق شیخ نے کہا کہ میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں اور مزدور باب کا مزدور بیٹا ہوں۔

دوہزار بیس روپے دیکر سینٹر منتخب ہوا تھا،گزشتہ ہفتہ دبئی سے اسلام آباد آ رہا تھا کہ مجھ سے جہاز میں ایک مسافر نے پوچھا کہ شیخ صاحب آپ کتنے کروڑ دیکر سینیٹر بنے تھے تو اس بات پر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ،شیخ عتیق کا کہناتھا کہ یہاں رواج ہے کہ امیر تر اورغریب ترین ہوتاجا رہا ہے،جب ہیلتھ کمیٹی کا چیئرمین تھا تو بڑے لوگوں اور کمپنیوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو مجھے فوری طور پر کمیٹی سے نکال دیا گیا۔

میری حکومت سے اپیل ہے کہ ملک کو بچانے کے لیے ملک میںڈیجٹلائزیشن کرنا ہو گا،ایک سازش کے تحت ہمارے ملک میں پابندی لگا دی گئی ،کون کہتا ہے کہ یہ کرنسی حرام ہے ،سعودیہ ،ایران ترکی میں حرام نہیں تو یہاں کیوں ایسا زہر گھول دیا گیا،ملک کے وزیراعظم سے گزارش ہے کہ ڈیجٹل کرنسی کی اجازت دینا ہوگی،دوائیوں کیقیمتکم کرنے کے لیے ایک قدم اٹھایا تو دوائیوں والا مافیا بھاری ہو گیا۔

میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ پانچ ہزار دوائیوںکی قیمت کم کی جا سکتی ہے ،کون کہتا ہے کہ اقدامات نہیں اٹھائے جا سکتے ہیں،یہاں ڈاکٹر کو تعلیم اور تعلیم والے کو ہیلتھ کا وزیر لگایا جاتا ہے ۔ سینیٹر سسی پلیجو نے سینٹ میں کہا کہ ایوان بالا سے متعلق میرا ذاتی خیال تھا کہ یہاں آنے سے وقت کا ضیاع ہے کیونکہ اس ایوان کی کہیں شنوائی نہیں ،لیکن میرا اندازہ غلط نکلا ،میں نے چھ سا ل میںجو سیکھا وہ پوری زندگی میں نہیں سیکھا۔

الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے سب سے پہلے میں نے رپورٹ بنا کر ایوان میں پیش کی اور یہ میرے لیے اعزاز ہے ،پانی کی تقسیم پر بھی بہت کام کیا اور اس پر بھی جامع رپورٹ مرتب کی گئی ،این ایف سی پر بھی بہت کام کیا۔ سینیٹرجنرل ریٹائرڈ ترمذی کا کہنا تھا کہ چھ سال پہلے والے مسائل آج بھی وہی ہیں،زلزلہ سے متعلق سوال کیا،اس کا جواب چھ سال گزرنے کے باوجود بھی نہ مل سکا،کے پی کے میں آج بھی بچے درختوں کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

میں نے ایک سال قبل وزیر اعظم کو خط لکھا جس کا جواب مجھے نہ ملا،میرے نو سال کے پوتے نے نیٹ سے ایڈریس لیکرکوئین آف انگلینڈ کو خط لکھا تو اس کا جواب فوری آ گیا،اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،میرے خیال میں سب سے پہلے سیاسی جماعتوں میں ریفارمز ہونا ناگزیر ہے ،بیشتر پارٹیوں میں مشاورت نام کی کوئی چیز نہیں،ٹی وی پر نام نہاد ترجمان اپنے اپنے لیڈران کو ڈیفنڈ کر رہے ہوتے ہیں۔

پی ایس ایل کے کھلاڑیوںکی طرح یہاں سیاسی کھلاڑ ی موجود ہیں ،فرق یہ ہے کہ وہاں کھلاڑی کو پیسے دیے جاتے ہیں یہاںسیاسی کھلاڑی سے پیسے لیکر ٹکٹ دیا جاتا ہے ،سینٹ کی قرار داد پر کوئی کان نہیں دھرتا،اگر وزیراعظم کو منتخب کرنے میں سینٹ کا کردار ہوتا تو اس کی ویلیو بھی بڑھ جاتی۔ سینیٹر گیان چند نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈمیں دس سال سے کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہاہے ،صوبے چیختے رہتے ہیں۔

مگر کوئی سننے والے ہیں،موجود ہ حکومت تو اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ،سندھ صدیوں سے قائم ہے ،سندھ کا کھا کر سندھ کی تقسیم کرنے کی باتیں کرنے والے خرام خور ہی ہو سکتے ہیں،میرا جس علاقہ سے تعلق ہے وہ تھرپارکر ہے وہاں چوری چکاری،کم ،قتل و غارت نہیں ہوتی،سب ایک دوسر ے کا احترام کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ۔

اور ایسا ماحول پورے ملک میں نہیں ہے ،تیرہ تاریخ کو پی ڈی ایم کے سینٹر یوسف رضا گیلانی منتخب ہوئے تو اسی ایوان میں وزیراعظم نے تقریر کرتے اس کو چور اور ڈاکو کہا،اس پر ایوان پر شور شرابہ ہو گیا،بہرہ مند تنگی نے شور مچانا شروع کر دیا اور ماحول گرم ہو گیا۔

پرائیذیڈنگ آفیسر شیخ عتیق نے کہا ایوان کو چلنے دیا جائے ،مجھے رولز نہ سکھائے جائیں،بہرہ مند تنگی ایسا ماحول نہ بنائیںکہ مجھے اجلاس ملتو ی کرنا پڑے ،گیان چند نے کہا کہ تسبیح ہلانے سے کوئی قلندر نہیں بنتا،ڈگڈگی بجانے سے کوئی بندر نہیں بنتا،۔