سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب آج ہوگا۔ سینیٹ میں اس وقت ارکان کی تعداد99 ہے۔سینیٹ کے کل ممبران کی تعداد100ہے لیکن مسلم لیگ ن کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے حلف نہ اٹھانے کی وجہ سے یہ تعداد99 رہ گئی ہے۔تحریک انصاف اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد44ہے۔ فاٹا کے تین اور بلوچستان کے ایک آزاد سینیٹر بھی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔
حکمراں جماعت کے26سینیٹر ہیں جبکہ بلوچستان سے نومنتخب آزاد سینیٹر عبدالقادر بھی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے13اور ایم کیو ایم کے3سینیٹر ہیں۔ مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ فنکشنل کا ایک ایک رکن ایوان بالا کا حصہ ہے۔اپوزیشن اتحاد کے پاس 51 سینیٹرز ہیں۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد20ہے۔مسلم لیگ ن کے17ارکان ہیں۔ جے یو آئی کے پانچ جبکہ اے این پی اور نیشنل پارٹی کے دو ، دو سینیٹرز ہیں۔جماعت اسلامی، بی این پی اور پی کے میپ کا ایک ایک سینیٹر ہے۔
ایک آزاد رکن پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکا ہے جبکہ بلوچستان سے نومنتخب آزاد رکن نسیمہ احسان بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے۔حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم نے چیئرمین سینیٹ کے لیے یوسف رضا گیلانی اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے مولانا عبدالغفور حیدری کے کاغذات حاصل کیے ہیں جبکہ دونوں عہدوں کے لیے کاغذات کے تین تین سیٹ حاصل کیے گئے ہیں۔پوزیشن ارکان نے بیلٹ پیپر کا سیمپل بھی سیکرٹری سینیٹ سے حاصل کرلیا ہے۔سیکرٹری سینیٹ کے مطابق سبز بیلٹ پیپر چیئرمین اور گلابی بیلٹ پیپر ڈپٹی چیئرمین کے لیے ہے۔
واضح رہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے الیکشن آج ہوگا جس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے، حکومت نے چیئرمین سینیٹ کے لیے صادق سنجرانی جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے مرزا آفریدی کو نامزد کیا ہے۔دونوں عہدوں پر کانٹے دار مقابلہ اس لئے ہوگا کہ کیونکہ اس وقت اسلام آباد میں سیاسی توڑ جوڑ کا سلسلہ جاری ہے حکومت اوراپوزیشن ایک دوسرے کا ووٹ توڑنے کیلئے تمام ترکوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ انہیں دونوں عہدوں پر برتری مل سکے۔ نمبر گیمز پر اب عوام نے سوچنا چھوڑ دیا ہے ۔
کیونکہ ان کے سامنے سابقہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا تجربہ جبکہ یوسف رضاگیلانی کی تازہ جیت کی مثال ہے تو اس نمبرگیم کے حوالے سے جس کا پلڑا بھاری ہو ضروری نہیں کہ وہ معرکہ مارے بلکہ کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اس سرپرائز سے دونوں اطراف کو سیاسی آفٹرشاکس لگنے کا امکان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جب سے اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے ان کا تمام تر زور این آر او نہ دینے پر ہے مگر حکومت کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے اپنے سخت ترین مخالف سیاسی رہنماء مولانافضل الرحمان کی جماعت کے مرکزی رہنماء مولاناعبدالغفور حیدری کو پیشکش کرنے کے بعد این آر او نہ دینے کی باتیں اب خالی خولی ثابت ہوچکی ہیں۔\\\
کیونکہ اس پیشکش کو این آر او کے ہی تناظر میں دیکھا جارہا ہے مگر کہتے ہیں کہ سیاست میںکوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتا بلکہ کچھ بھی کبھی بھی ہوسکتا ہے اس لئے پرویز خٹک صاحب پیشکش لے کر گئے اور اپوزیشن کی جانب سے اسے ٹھکرادیاگیا ۔دوسرا بڑا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یوسف رضاگیلانی کی جیت کے بعد وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لے کر اکثریت ثابت کردی تو اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومت کو شکست کا سامنا کرناپڑا تو پھر دوبارہ وزیراعظم کونسا بڑا فیصلہ لینگے؟
لے دے کے بات ایک ہی جگہ پر آن پہنچتی ہے کہ اپوزیشن بھی حکومتی ارکان کی وفاداریاںحاصل کرنے کیلئے ملکی معاشی وسیاسی مسائل کو ترجیح نہیں دیتی اور نہ ہی عوامی مسائل لیکر ان کے پاس جاکر ووٹ لینے گزارش کررہی ہے بلکہ اس میں براہ راست ہارس ٹریڈنگ کاعمل دخل ہے اور یہ کھیل دونوں اطراف سے کھیلاجارہا ہے درمیان میںعوام تمام ترمسائل کی چکی میں پس رہی ہے۔ بہرحال آج ہونے والا الیکشن ایک نیا ہنگامہ ضرور کھڑا کرے گا مگر یہ ہنگامہ کس صف میں برپا ہوگا یہ انتخاب کے بعد ہی سامنے آئے گا۔