کوئٹہ: سماجی رہنمائوں اورسینئرصحافیوں نے کہا ہے کہ تعلیم وصحت سمیت دیگر بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے بلوچستان میں خواتین اورلڑکیوں کومشکلات کاسامناکرنا پڑتا ہے، صوبے میں بچوں کی کم عمری میں شادیوں کابل 2016سے ابھی تک تعطل کاشکارہے، گھریلوتشددکاخاتمہ یقینی بناکرکام کرنے کی جگہوں پر خواتین کوتحفظ فراہم کرناضروری ہے تاکہ وہ بھی ترقی کے عمل میں اپنابہترکرداراداکرسکیں۔
ان خیالات صائمہ ہارون، ایڈووکیٹ عبدالحئی بلوچ، جنرل سیکریٹری کوئٹہ پریس کلب ظفربلوچ، منظوربلوچ، عبداللہ زہری، بشریٰ قمرودیگر نے جمعہ کے روز’’وومن وائس اینڈلیڈرشپ پاکستان ‘‘کے زیراہتمام CRMاورSPOکے تعاون سے منعقدہ آگاہی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر عبدالحئی ایڈووکیٹ نے کہا کہ خواتین کو برابری کی بنیادپربنیادی حقوق فراہم کرناوقت کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں بلوچستان میںبلوچستان میں سماجی تنظیموںآراین این،ایواجی الائنس،پَرپَل وومن، چائلڈرائٹس موومنٹ، ورکنگ وومن پرمشتمل الائنس تشکیل دی گئی ہے اور جمہوری عمل کے تحت مل کر لائحہ عمل طے کرلیاہے جس کے مطابق خواتین اوربچوں کے حقوق کیلئے مل کر جدوجہد کریںگے۔اس موقع پر صائمہ ہارون نے بتایاکہ کوئٹہ، سبی اورخضدارمیں صرف تین شیلٹرہوم ہیں جبکہ صرف ایک چائلڈپروٹیکشن یونٹ بنایاگیا ہے۔
جوناکافی ہیںصوبے کے دوردرازاضلاع میں ہیلپ لائن نمبرکے ذریعے بروقت اورفوری امدادممکن نہیں ہے،اس بارے میں مزیدسنجیدگی کے ساتھ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ،انہوں نے بتایاکہ کم عمری کی شادیوں کابل 2016سے ابھی تک تعطل کاشکارہے، کام کرنے کی جگہ پرہراسانی کامسئلہ، بچوں کیلئے صرف ایک چائلڈ پروٹیکشن یونٹ ہے جو کہ صوبہ بھر کیلئے ناکافی ہے۔
گھریلوتشددکاخاتمہ کرنے کابل پاس ہوچکا مگراس پر تاحال عملدرامدنہیں کیاگیا،انہوں نے کہاکہ کوئٹہ میںصرف17فیصدخواتین تعلیم یافتہ جبکہ83فیصدتعلیم کے حق سے محروم ہیں، انہوں نے بتایاکہ 2017کی مردم شماری کے مطابق خواتین ملکی آبادی کا 48فیصدحصہ ہونے کے باوجودضروری حقوق سے محروم ہیں ، معاشرے میں صنفی نابرابری کی وجہ سے لڑکیوں اورخواتین کو جنسی ہرانی، کم تنخواہ پرکام کرنے، تعلیم تک رسائی کے کم مواقع اورطبی سہولیات کی عدم دستیابی کاسامناکرنا پڑرہا ہے،مختلف سماجی تنظیمیں خواتین کے حقوق کیلئے کام کررہے ہیں۔
تاہم اس میں مزیدکام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو ایک بہتراوردوستانہ ماحول فراہم کیاجاسکے تاکہ وہ اپنابھرپورکرداداداکرسکیں۔اس موقع پرجنرل سیکریٹری کوئٹہ پریس کلب ظفربلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں کام کرنے والے صحافی ایک وقت میں مختلف مسائل کی رپورٹنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے کا م کابوجھ بڑھ جاتاہے تاہم یہاں کام کرنے والے صحافی خواتین اوربچوں کے حقوق اوران پرہونے والے تشددکے کیسزکورپورٹ کرتے ہیں۔
تاہم ہمارے پاس ڈیٹاموجودنہیں ہوتا اوراس کیلئے سماجی تنظیموں کے پاس کوئی مصدقہ ڈیٹانہیں ہوتا جس سے ہمیں مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے، علاوہ ازیںتقریب سے بہرام بلوچ، میربہرام لہڑی، عادل نذیرمحمدحسنی، شازیہ بتول، محمدکرامت اللہ خان ودیگر نے بھی خطاب کیا۔