|

وقتِ اشاعت :   March 13 – 2021

چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومتی امیدواروں نے اپوزیشن امیدواروں کو شکست دے دی۔حکومت کے نامزد کردہ صادق سنجرانی ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے جبکہ اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں مرزا محمد آفریدی نے کامیابی حاصل کی جبکہ مولانا عبدالغفور حیدری کو شکست ہوئی۔چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے 98 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

نتائج کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے ا نتخاب میں صادق سنجرانی کو 48 اور یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے جبکہ 8 ووٹ مسترد ہوئے۔ 7 ووٹرز نے یوسف رضا گیلانی کے نام کے اوپر مہر لگائی جس کی وجہ سے یہ ووٹ مسترد ہوئے جبکہ ایک ووٹر نے دونوں امیدواروں کے آگے مہر لگائی۔ڈپٹی چیئرمین شپ کیلئے حکومت کی جانب سے مرزا محمد آفریدی اور اپوزیشن کی جانب سے عبدالغفور حیدری کے درمیان مقابلہ ہوا۔ حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی نے 54 اور پی ڈی ایم کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری نے 44 ووٹ حاصل کیے۔

اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کی بناء پر مرزا محمد آفریدی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے اور صادق سنجرانی نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔اس سے قبل سینیٹ میں چیئرمین کا عہدہ حکومتی حمایت یافتہ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کے پاس تھا۔ایوان بالا کی دونوں نشستوں پر دلچسپ معاملات سامنے آئے ہیں ایک طرف یوسف رضاگیلانی کے ووٹ مسترد ہوئے جس پر اپوزیشن نے نتائج کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اوران کا مؤقف ہے کہ ان کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالاگیا ہے۔

کیونکہ بیلٹ پیپر پرجو ہدایات دی گئی تھیں ان میں واضح طور پر یہ لکھاگیاہے کہ اپنے امیدوار کے خانہ میں ووٹ کا اندراج کیاجائے جبکہ خانہ کے اندر امیدوار کے نام پر مہر لگانے کے بعد یہ ووٹ یوسف رضاگیلانی کے حق میں ہی جاتا ہے جس پر اپوزیشن نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے چند فیصلوں کے حوالے جات بھی دیئے کہ ووٹ دینے والے کی نیت دیکھنی چاہئے ۔بہرحال یہاں تک اپوزیشن کے مؤقف اور عدالت جانے کے فیصلے تک کسی حد تک تسلی لی جاسکتی ہے مگر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست کے لیے ووٹ کس طرح حکومتی اتحادی جماعت کو پڑے اس پر اپوزیشن کیا بیانیہ اپنائے گی۔

کیونکہ ڈپٹی چیئرمین کوواضح طور پر برتری ملی ہے باوجود اس کے کہ اپوزیشن کے پاس اکثریت تھی اور میدان حکومتی امیدوار نے مار لیا یعنی اپوزیشن ارکان کی صفوں میں اب دراڑیں پڑچکی ہیں یہاں پھر وفاداریاں تبدیل ہوتی جارہی ہیں اور پی ڈی ایم اندرون خانہ اختلافات کا شکار ہوچکی ہے کیونکہ گزشتہ چند دنوں سے اپوزیشن لیڈران یہ باتیں کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے اندر کوئی اختلاف نہیں بلکہ وہ مضبوط یکجہتی اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

مگر اب سینیٹ کی ان دواہم مناصب پر شکست کے بعد سوالات ضرور اٹھیں گے کہ یوسف رضاگیلانی کے نام پر مہر باقاعدہ منصوبے کے تحت لگائے گئے تاکہ ووٹ خراب ہوکر مسترد ہوجائیںاور حکومتی امیدوار صادق سنجرانی جیت سکیں کیونکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست پر ووٹ مسترد ہونے کی وجہ سے اپوزیشن جماعت کے امیدوار مولاناعبدالغفور حیدری کو شکست کا سامنانہیں کرناپڑا بلکہ باقاعدہ طور پر اپوزیشن ارکان کی جانب سے ان کو ووٹ نہ ملنے کے باعث شکست ہوئی ہے ۔ بات اسی جگہ پر آکر رک جاتی ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی کھیل کھیلا جاسکتا ہے اس لئے نظام کے ساتھ کھیلواڑ جاری ہے مگر یہ سیاسی رویہ ملکی سیاسی مستقبل کیلئے نیک شگون نہیں۔