|

وقتِ اشاعت :   March 19 – 2021

اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم میں اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے، ہم متحد ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب پی ڈی ایم بنارہے تھے تو استعفے کا آپشن رکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں 9 جماعتیں ایک طرف ہیں، پی ڈی ایم کو پیپلز پارٹی کے فیصلے کا انتظار ہے۔اس سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف اورسربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔

اطلاعات کے مطابق ٹیلی فونک رابطے میں دونوں رہنماؤں نے آصف علی زرداری اور مریم نواز کے درمیان تلخ گفتگو پر تبادلہ خیال کیاجبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری کی گفتگو سے سخت دکھ اور تکلیف پہنچی،ہم تو90 کی دہائی کی سیاست دفن کرکے آگے بڑھے تھے پھر الزام تراشی کیوں ہورہی ہے۔ نواز شریف سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہیں خود زرداری صاحب کے غیرجمہوری رویے سے دکھ ہوا۔

اطلاعات کے مطابق دونوں رہنماؤں نے گفتگو میں آئندہ کی حکمت عملی پر بھی غور کیا۔واضح رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے لانگ مارچ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے فیصلے تک ملتوی کردیا ہے۔اس سے قبل پی ڈی ایم اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ سربراہی اجلاس میں 9 جماعتیں استعفوں کے حق میں تھیںجبکہ پی پی نے فیصلے کے لیے وقت مانگا ہے اور ہم نے وقت دیا ہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ امیر جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ 26 مارچ کا لانگ مارچ پیپلزپارٹی کے جواب تک ملتوی تصور کیا جائے۔

بہرحال سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے جو باتیں اجلاس کے دوران کی گئیں تھیں اس سے کوئی بھی ذی شعور شخص یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ آصف علی زرداری اس بیانیہ کے ساتھ فی الوقت چلنے کیلئے زیادہ تیار نہیں کہ اس سے سیاسی طور پر انہیں نقصان اٹھاناپڑے کیونکہ آصف علی زرداری کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ وقت پر اپنے پتے کھیلتا ہے اور پھانسہ پلٹنے کیلئے مؤثرحکمت عملی ایک پلان کے تحت پہلے سے ہی ترتیب دیتے ہیں جس پر پوری پارٹی اس کے ساتھ کھڑی رہتی ہے اور وہی تمام فیصلے سمیت کمان کرتا ہے۔

اور اب بھی آصف علی زرداری نے جس طرح سے پی ڈی ایم اجلاس کے پورے رخ کو موڑ کر اپنی طرف کردیا ہے اس کی واضح مثال مولانافضل الرحمان اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی بات چیت ہے اور اب بھی یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں پی ڈی ایم کے فیصلوںکے ساتھ چلیں گے۔ جہاں تک لانگ مارچ کی بات ہے تو پیپلزپارٹی لانگ مارچ میں حصہ لے گی اس سے کوئی زیادہ اثر حکومت پر نہیں پڑے گا کیونکہ ملکی سیاسی حالیہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام آباد ڈی چوک پر طویل دھرنے اور احتجاج ہوئے مگر اس کے نتائج کیا نکلے کوئی بھی حکومت رخصت نہیں ہوئی۔

اس لئے لانگ مارچ سے حکومت کی تبدیلی کے متعلق سوچنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ۔رہی بات اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تو اسے آصف علی زرداری نے نوازشریف کی ملک آمد کے ساتھ مشروط کردیا ہے یعنی پیپلزپارٹی سندھ حکومت کی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں اسی لئے زرداری نے یہ شرط رکھا ہے۔ بہرحال آصف علی زرداری فی الوقت دونوں پیج پر کھیل رہے ہیں مگرنتائج کے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا البتہ پی ڈی ایم اتحاد کامستقبل خطرے میں پڑگیا ہے اب ہر کوئی اپنے پتے کھیلنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح سے حکومت گرانے کے خطرے کے بادل چھٹ گئے ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ اس تمام سیاسی صورتحال میں زرداری حکومت کی بجائے پی ڈی ایم پر بھاری پڑگئے۔