|

وقتِ اشاعت :   March 20 – 2021

افغانستان میں قیام امن کیلئے ماسکو میں جاری مذاکرات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق تمام فریقین نے پائیدار امن کو سیاسی مذاکراتی عمل کے ذریعے ممکن بنانے پراتفاق کیااور تمام فریقین 40سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے کوحتمی شکل دیں گے۔افغان حکومت اور قومی مصالحتی اعلیٰ کونسل مسئلے کے حل کیلئے طالبان سے مذاکرات کریں گے۔اعلامیہ کے مطابق افغان حکومت اورطالبان کسی کواپنی سرزمین کسی دوسرے کیخلا ف استعمال نہ کرنے دیں گے۔ماسکو میں جاری مذاکرات میں افغان تنازع کے تمام فریق تشدد میں کمی لائیں گے۔

اور طالبان مزید کسی کارروائی سے گریزکریں گے۔ماسکو کانفرنس میں طالبان وفد کی قیادت ملابرادر جبکہ افغان حکومت کے وفد کی قیادت عبداللہ عبداللہ نے کی۔ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور پاکستان اور چین کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ قطر اور ترکی نے بطور مہمان مذاکرات میں شرکت کی۔بائیڈن انتظامیہ نے تجویز دی تھی کہ افغانستان کے لیے نئے آئین پر اتفاق اور انتخابات منعقد کرنے کیلئے ایک عبوری حکومت بنائی جائے اور ایک مشترکہ کمیشن جنگ بندی کی نگرانی کرے جبکہ صدر اشرف غنی نے عبوری حکومت کے لیے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کانفرنس یا سیاسی معاہدے کے ذریعہ قائم کسی عبوری نظام کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔

افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے عبوری حکومت پر اتفاق نہ کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بعض نکات پر افغان حکومت متفق نہیں ہے بلکہ وہ اپنی مدت کو پوری کرنے کے ساتھ ساتھ افغان امن عمل کو آگے بڑھاناچاہتی ہے اس پر ملابرادران نے اب تک کوئی پالیسی بیان نہیں دی ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ مذاکرات کا تسلسل برقرار رہنا چاہئے اور اسے نتیجہ خیز ثابت بنانے کیلئے دونوں فریقین کی رضا مندی ضرور ہونی چاہئے جس میں افغانستان سمیت خطے کے مفادات وابستہ ہوں کیونکہ دہائیوں سے نہ صرف افغانستان جل رہا ہے۔

بلکہ اس جنگ نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ افغانستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات بھی ہورہے ہیں جو کہ خطرناک ہے اس لئے سنجیدگی کے ساتھ امن عمل کو آگے بڑھانا وقت کی اشد ضرورت ہے اور اس سے افغان عوام کا مفاد براہ راست وابستہ ہے جو آج جنگی حالات کی وجہ سے لاکھوں کی تعدادمیں دیگر ممالک میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ افغانستان میں روز عوام دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیںاور اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاکر اب وہ بھی تھک چکے ہیں ،شاید ہی کوئی دن ایسا گزرے کہ افغانستان میں شرپسندی کا واقعہ رونما نہ ہو۔

بہرحال افغان امن عمل کیلئے تمام فریقین کی کاوشیں قابل تحسین ہیں جو دہائیوں سے سلگتے مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ دونوں فریقین کو میز پر بٹھاکر بات چیت کے عمل کو آگے بڑھارہے ہیں ۔امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے جس سے افغانستان اور خطے میں نہ صرف امن لوٹ آئے گا بلکہ خوشحالی کے دروازے کھل جائینگے کیونکہ جنگ کے خاتمے سے معاشی سرگرمیاں بحال ہونگی یقینا اس کا فائدہ خطے سمیت دنیا کو بھی ہوگا۔