مالا کنڈ: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا ٹاٹا برلا کی طرح یہاں آصف زرداری اور نواز شریف امیر بنیں،30سال ملک کا پیسہ چوری ہوتا رہا او ر ان کو بھی نہیں پتہ کتنا پیسہ چوری ہوا، ادھر تو پیسے کیلئے باپ اور اولاد دونوں جھوٹ بولتے ہیں اور اولاد بھی ،پیسہ کسی کو خوشی نہیں دیتا،اصل خوشی اللہ کوخوش کرنے میں ہے، ہم نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان ڈیفالٹ کرنے جارہا تھا۔
دوست ممالک نے مدد کی اور ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا، پاکستان ڈیفالٹ ہوجاتا تو روپیہ گر جاتا اور مہنگائی میں بدترین اضافہ ہوجاتا، پہلا سال بہت مشکل تھا ،(ن) لیگ نے ڈھائی سال میں سود کے ساتھ قرضہ 20 ہزار ارب روپے واپس کیااور ہم نے ڈھائی سال میں سود کے ساتھ 35 ہزار ارب کا قرضہ واپس کیا، ہمیں قرضوں کی واپسی کے لیے دولت میں اضافہ کرنا ہوگا۔
بڑے سرمایہ کار بنڈل جزیرے پر سرمایہ کاری کے منتظر ہیں، سندھ حکومت بنڈل جزیرے پرسرمایہ کاری کی اجازت نہیں دے رہی، اکیلا زراعت کا شعبہ ہمیں ترقی کی سمت لے جاسکتا ہے، سوات میں کورونا کے باوجود سیاحت کاشعبہ کامیاب رہا ، 50سال کے بعد 2 بڑے ڈیمز بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم بنارہے ہیں، ڈیم سے ڈی آئی خان میں تین لاکھ ایکڑ زمین کاشت ہوگی۔
اللہ نے ملک کوکسی چیزکی کمی نہیں دی، ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہوگی، نمل یونیورسٹی پاکستان کی آکسفورڈ یونیورسٹی بنے گی۔ جمعہ کو یونیورسٹی آف مالاکنڈ کے نئے بلاک کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ القادر یونیورسٹی رواں برس ستمبر میں شروع ہوگی، جس کیلئے میں نے دنیا کے بڑے اسلامی اسکالرز کو آن بورڈ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری کوشش یہ ہے کہ القادر یونیورسٹی سے اپنی قوم کو ایک ایسی انٹیلیکچوئل لیڈر شپ دوں کہ جو لوگوں کو سمجھائے کہ اللہ پاک نے ہمیں کیوں پیدا کیا، ہمارا دنیا میں مقصد کیا ہے، جب اس دنیا سے واپس جائیں گے تو ہمارا کیا ہوگا اور اللہ پاک نے جتنے پیغمبر دنیا میں بھیجے ان کا مقصد انسانوں کو یہی سمجھانا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک جانور دنیا میں آتا ہے کھاتا پیتا ہے بچے پیدا کرتا ہے ۔
اور مر جاتا ہے اور اگر انسان بھی دنیا میں آکر کھائے پیے، بچے پیدا کرے اور اپنے لیے پیسہ بنائے تو اس میں اور جانور میں زیادہ فرق نہیں رہ جاتا، انسان اللہ کی سب سے عظیم مخلوق ہے اللہ نے فرشتوں کو انسان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں افراتفری مچی ہوئی ہے، لالچ ہے، پیسوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں کہ جیسے پیسے سے خوشی آجائے گی، نیویارک ٹائمز میں ایک بہترین ماہر نفسیات کی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ ان کے مریضوں کی دولت جتنی بڑھتی رہین اتنی ان کی خوشی کم ہوتی گئی۔ یعنی خوشی اور دولت کا بلاواسطہ رابطہ ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں اتنے بڑے بڑے اربوں پتی ہیں کہ جنہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے پاس کتنا پیسا ہے 30 سال اس ملک کا پیسہ چوری کیا ہے لیکن لعنت ہے ایسے پیسے پر کہ بچے بھی جھوٹ بول رہے ہیں، خود بھی جھوٹ بول رہے ہیں، کبھی ہسپتال تو کبھی جیل جارہے ہیں یہ ہمارے لیے عبرت ناک چیز ہے۔انہوں نے کہا کہ خوشی اس بات سے ملتی ہے کہ آپ 5 وقت نماز پڑھیں اور دعا کریں کہ اللہ مجھے اس راستے پر لگائے کہ جنہیں تو نے نعمتیں بخشیں۔
ان کے نہیں کہ جو اپنی تباہی کے راستے پر نکل گئے، پوری زندگی یہ دو راستے آتے ہیں جس میں سے ایک خوشی کا اور دوسرا تباہی کا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک راستہ آسان راستہ نہیں مشکل ہے، اللہ نے سے زیادہ نعمتیں اپنے پیغمبروں کو بخشیں لیکن کسی بھی پیغمبر کی زندگی آسان نہیں تھی، قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے جس چیز کو تم اپنے لیے برا سمجھتے ہو وہ اچھا ہے۔
اور جسے اچھا سمجھتے ہو وہ برا ہے مطلب یہ کہ ہم اکثر آسان زندگی کو اچھا سمجھتے ہیں لیکن وہ انسانی کی صلاحیت کو تباہ کردیتی ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم زندگی میں شارٹ کٹ لے لیتے ہیں تاہم آج تک کسی نے اپنی زندگی میں شارٹ کٹ لے کر بڑا کام نہیں کیا، اگر اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم جن سے اللہ کو سب سے زیادہ محبت ہے انہیں 13 سال مشکل وقت سے گزارا تو ہمارے لیے تو برا نہیں ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ نبوت کے 10 سال بعد تک صرف 40 لوگ مسلمان تھے تاہم نبوت کے 23 سال کے بعد جو انقلاب آیا دنیا کی تاریخ میں ایسا انقلاب نہیں آیا، اس لیے میں القادر یونیورسٹی بنا رہا ہوں کہ ہم مطالعے کریں کہ عرب جن کے پاس طاقت نہیں تھی جو تقسیم تھے ان کے پاس ایسی کیا چیز تھی کہ 15-16 کے عرصے میں دنیا کی 2 بڑی سپر پاورز ان کے سامنے گٹھنے ٹیک گئیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے وہ تہذب قائم کی جو سب سے عظیم تہذیب تھی جس میں علم کو ترقی دی گئی جس کی وجہ سے یورپ اور مغرب آگے بڑھا۔انہوں نے کہا کہ القادر یونیورسٹی کا مقصد ہے یہ اسلام کے خیالات کو ترقی دیں، ہمارے دانشور آئیں اور بتائیں کہ ملک بنا کیوں تھا، اگر یہ ملک بنناتھا کہ ٹاٹا برلا کی جگہ شریف اور زرداریوں نے امیر ہونا تھا تو اس کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
علامہ اقبال کا واضح مؤقف تھا کہ یہ ملک دنیا کے لیے مثال بنے گا کہ اصل میں اسلام کیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکنالوج اور ٹیکنیکل تعلہیم اتنہائی ضروری ہے کیوں کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ تعلیم ہمیں آگے لے کر جائے گی ہمارے نوجوان کو جب تک ٹیکنکل تعلیم نہیں ملے گی اسے روزگار نہیں ملے گا اور دنیا میں وہ معیشت اوپر جاتی ہے جو نالج اکانومی ہو۔
انہوںنے کہاکہ ہم نے دنیا میں یہ بہت بڑی غلطی کی کہ ٹیکنالوجی، اعلیٰ تعلیم اور نہ ہی تکنیکی تعلیم پر اتنا زور دیا ہے یہ سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ایک دنیا میں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے دوسری تعلیم بتاتی ہے کہ دنیا میں ہمارا مقصد کیا ہے، یونیورسٹی کی تعلیم کا معاشرے پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ 120 برس قبل امریکا نے ترقی کی کرنی شروع کی تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دنیا میں سب سے زیادہ گریجویٹس امریکا میں نکل رہے تھے جب آپ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اپنی آبادی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو وہ خودبخود ملک کو ترقی دیتی ہے۔