|

وقتِ اشاعت :   March 23 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں محکمہ صحت اور محکمہ پی اینڈ ڈی سے 31مارچ کے اجلاس سے قبل لورالائی اور جھالاوان میڈیکل کالجز سے متعلق مکمل تحریری رپورٹ طلب، بلوچستان زرعی یونیورسٹی،سابقہ صوبائی انتظامی قبائلی علاقہ جات میں قوانین کے تسلسل،ضابطہ فوجداری میں ترمیم،بلوچستان آرٹس کونسل،بلوچستان قرآن پاک (طباعت اورریکارڈنگ) کے قوانین منظور کر لئے گئے۔

جبکہ وقفہ سوالات اور ایک توجہ دلاؤ نوٹس محرکین کی عدم موجودگی پر موخر کردئیے گئے۔بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کو دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا،اجلاس میں بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں بلوچستان ہائیکورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے جس میں عدالت عالیہ نے بلاپیمودہ زمینوں کی سیٹلمنٹ سے متعلق قانون سازی کا حکم دیا ہے۔

حکومت بلا پیمودہ زمینوں سے متعلق قانون سازی کرے اور قبائل کو ان کی زمینوں پر حق دیا جائے انہوں نے کہا کہ صوبے میں قبضہ گیری کا بازار گرم ہے جبکہ کوئٹہ اس کا مرکز بنا ہوا ہے مشرقی، مغربی بائی پاس، نواں کلی اور دیگر علاقوں میں بلا پیمودہ زمینوں پر قبضے کئے جارہے ہیں سریاب روڈ اور سبزل روڈ توسیعی منصوبے سے متعلق جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس کمیٹی کا اب تک اجلاس ہی منعقد نہیں ہوا جبکہ لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

جس پر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ بلا پیمودہ زمینوں کی سیٹلمنٹ کرے۔ احمد نواز بلوچ نے کہا کہ سریاب روڈ توسیعی منصوبے کی وجہ سے گزشتہ ساٹھ سال سے وہاں کاروبار کرنے والے دکانداروں کو ایک دم بے دخل کیا جارہا ہے۔ صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ آچکا ہے جس کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیٹلمنٹ آج کا نہیں بلکہ یہ پرانا مسئلہ ہے جسے حکومت ذمہ داری حل کرنے کی کوشش کررہی ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ صاحب خود اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو انہوں نے کہا کہ سیٹلمنٹ کے حوالے سے عملے کی کمی کے باعث کنٹریکٹ پر مزید عملہ تعینات کیا گیا ہے قبائل کو ان کا حق دیا جائے گا اور تمام زمینوں کی سیٹلمنٹ کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سریاب روڈ توسیعی منصوبے سے متعلق قائم کمیٹی کا اجلاس چوبیس تاریخ کو بلا رہے ہیں کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں ہوگی۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے کہا کہ موجودہ حکومت میں جمہوری اقدار پامال اور لوگوں کے جمہوری حقوق سلب کئے جارہے ہیں ایسی حکومت نہ ماضی میں آئی ہے نہ مستقبل میں آئے گی۔اس حکومت میں جو آمریت ہے۔

اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ بلا پیمودہ زمینوں سے متعلق 1992ء میں بلوچستان اسمبلی نے فیصلہ کیا تھا بلا پیمودہ اراضی وہاں کے لوگوں اور قبائل کی ہے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر جونیئر ٹیچرز ایسوسی ایشن تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہیں بی اینڈآر 361ملازمین سراپااحتجاج ہیں جودس سال تک فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔

گلوبل پارٹنر شپ کے اساتذہ اسمبلی کے باہر احتجاج کررہے ہیں معاملات کو آج اور کل پر ٹالنے کی بجائے ان کے حل کے لئے کام کیا جائے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے درست کہا ہے کہ ایسی حکومت نہ ماضی میں آئی نہ آئندہ آئے گی جس طرح ترقیاتی کام اب ہورہے ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی2028ء تک جام کمال خان وزیراعلیٰ رہیں گے۔

انہوں نے بلوچستان پولیس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سریاب میں معصوم بچوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو پانچ دن کے اندر گرفتار کیا گیا ہے عدالتوں پربھروسہ ہے کہ وہ ملزمان کو نشان عبرت بنائیں گے۔اجلاس میں جے یوآئی کے رکن میر یونس عزیز زہری نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر صحت کی توجہ مبذول کرائی کہ جھالاوان میڈیکل کالج اور خضدار میں 300بستروں پر مشتمل ہسپتال کے تعمیراتی کاموں کو گزشتہ تین سال سے بند کرنے کی کیا۔

وجوہات ہیں نیز کیا حکومت مذکورہ منصوبوں کو ختم کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتی توجہ دلاؤ نوٹس کے محرک یونس عزیز زہری اور ثناء بلوچ نے کہا کہ2013ء میں تین میڈیکل کالجز بنانے کا فیصلہ کیا گیا اس وقت صوبے میں چھ سے سات ہزار مریضوں کے لئے ایک ڈاکٹر موجود ہے تربت میڈیکل کالج اس وقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے حلقے میں آنے کی وجہ سے مکمل کیا۔

جبکہ جھالاوان اور لورالائی میڈیکل کالجز کو جان بوجھ کر تاخیر کا شکار کیا گیا ہے دو سے تین ارب روپے ریلیز ہونے کے باوجود میڈیکل کالجز کیوں نہیں بن رہے حکومت نے شعبہ تعلیم کے تمام منصوبے بیک جنبش قلم بند کردیئے ہیں۔ اس موقع پر صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے کہا کہ اپوزیشن ارکان حقائق کے منافی بات کررہے ہیں تین میڈیکل کالجز شروع ہوئے حکومت نے تربت میڈیکل کالج کے لئے ہسپتال منظور کرلیا ہے جبکہ دیگر دو میڈیکل کالجز کو پی ایم سی سے منظور کروانے کے لئے سفارش کی گئی ہے حکومت نے نہ تو کالج رول بیک کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

اور نہ ہی انہیں بند کرنے کی بات میں کوئی حقیقت ہے تینوں میڈیکل کالجز میں چھ سو سے کے قریب طلباء زیر تعلیم ہیں تینوں کالجز حکومت کی ترجیح ہے اور انہیں مکمل کیا جائے گا تاہم پی ایم سی کے لوازمات پورے کرنا بھی ضروری ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہر اسکیم کے لئے 33فیصد ایلوکیشن رکھنے کی منظوری دی ہے جس کی وجہ سے اب کسی بھی منصوبے کو زیر التواء نہیں رکھا جاسکتا۔

اس موقع پر چیئر مین اصغرخان اچکزئی نے رولنگ دی کہ محکمہ صحت اور محکمہ پی اینڈ ڈی 31مارچ کے اجلاس سے قبل لورالائی اور جھالاوان میڈیکل کالجز سے متعلق مکمل تحریری رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن عبدالواحدصدیقی کی عدم موجودگی پر انکا توجہ دلاؤ نوٹس اور محکمہ کیو ڈی اے، محکمہ خوراک، محکمہ مال،محکمہ سماجی بہبود سے متعلق سوالات محرکین کی عدم موجودگی پر موخر کردیے گئے۔

اجلاس میں بلوچستان زرعی یونیورسٹی کا مسودہ قانون 2020،سابقہ صوبائی انتظامی قبائلی علاقہ جات میں قوانین کے تسلسل کا مسودہ قانون 2020،ضابطہ فوجداری 1898بلوچستان کا ترمیمی مسودہ قانون 2021،دی بلوچستان آرٹس کونسل کا ترمیمی مسودہ قانون 2021،،بلوچستان قرآن پاک (طباعت اورریکارڈنگ) کا مسودہ قانون 2021منظور کر لئے گئے۔

جبکہ ایوان میں مجلس قائمہ بر محکمہ زراعت و کو آپریٹو سوسائٹی، لائیوسٹاک ڈیری ڈوپلمنٹ،ماہی گیری،خوراک، مجلس قائمہ بر محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی، بین الصوبائی رابطہ، قانون و پارلیمانی امور،پراسیکوشن و انسانی حقوق، مجلس قائمہ برائے محکمہ داخلہ وقبائلی امور، جیل خانہ جات، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ، کی رپورٹ پیش کی گئیں بعدازاں اسمبلی کا اجلاس 24مارچ کو سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔