کراچی: جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے انسانی حقوق نے مسنگ پرسن کمیشن کو محض خانہ پری قراردیتے ہوئے کہاہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے گرینڈ پیپلز الائنس تشکیل دیا جائے اورپارلیمنٹ لاپتہ افراد کے معاملے پرکمیٹی بنائے،مقررین کا کہنا تھا کہ صوبائی خود مختاری مانگنے والوں کوغائب کیا جارہا ہے،آرٹیکل 6 آئین کو توڑنے یا کوشش کرنے میں ملوث شخص کو مجرم کہتا ہے۔
مگرآئین کی خلاف ورزی کرنے والے کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے،ملک کااہم مسئلہ قومی بالادستی ہے۔ ان خیالات کا اظہارسیاسی اورمختلف قوم پرست جماعتوں،انسانی حقوق تنظیموں کے رہنماؤں پیپلزپارٹی کے سینیٹر میاں رضاربانی،سابق گورنرسندھ مسلم لیگ ن کے محمدزبیر،معاشی ماہرڈاکٹرقیصربنگالی،اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک،سینیٹر عثمان کاکڑ،بشری گوہر۔
عورت فاؤنڈیشن کی مہنازرحمان،قوم پرست رہنما ماما قدیربلوچ،نیشنل پارٹی ڈاکٹراسحق بلوچ،قوم پرست رہنما تاج جویو، ناصرزیدی،ہیومین رائٹس کے چیرمین اسد اقبال بٹ دیگرنے کراچی پریس کلب میں منعقد ہ آئین پاکستان کی بنیادی شق کی خلاف ورزیوں اورلاپتہ افراد کے لیے نیشنل مسنگ پرسن کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔پیپلزپارٹی کے رہنما سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹرمیاں رضاربانی نے کہاکہ کسی پاکستانی کو محب وطن ہونے کاسر ٹیفیکٹ نہیں لیناہے۔
جبری گمشدگی آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے،آئین خود گروی رکھا گیا ہے،آئین کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ آئین کو توڑنے یا کوشش کرنے میں ملوث شخص مجرم ہے مگر آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کو ملک سے بھیج دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک عدالتی فیصلوں کے ذریعہ آمر کو حقوق سلب کرنے کی اجازت دی گئی،آئین کے مطابق ہر شہری کے برابر کے حقوق ہیں،قانونی تقاضے عدالتوں میں پورے کرنے کی آئین میں تشریح موجود ہے۔
مگرسپریم کورٹ کے لاپتہ افراد کی تفصیل طلب کرنے کے باوجود تفصیلات پیش نہیں کی گئی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو کہناپڑا کہ چیف سیکریٹری کو گرفتار کرنا پڑے گا،موجودہ حکومت کے تحت قانون کے مختلف معیار ہیں،اشرافیہ اورعام شہری کے لیے الگ قانون ہے۔انہوں نے کہاکہ مسنگ پرسن کمیشن محض خانہ پری ہے،جمہوری طاقتوں کا موثر اتحاد ہی قومی مسائل کا حل ہے،گرینڈ پیپلز الائنس تشکیل دینا وقت کی ضرورت ہے۔
ملکی آئین جب گروی ہو توآئین شکنی بڑھ جاتی ہے،آرٹیکل بدلنے کا طریقہ پارلیمنٹ ہے۔سابق گورنرسندھ محمد زبیرنے کہاکہ ہمارے دورمیں جن افراد کولاپتہ کیا گیا ان کی ذمہ داری ہم قبول کرتیہیں،بلوچستان میں ہم نے سب سے زیادہ مسنگ پرسنزآزادکروائے،شیریں مزاری کوشش توکررہی ہیں پرکامیاب نہیں ہونگی،عمران خان ایسا کچھ نہیں کریں گے جس سے سلیکٹرزناراض ہوں،پارلیمنٹ مسنگ پرسنزپرکمیٹی بنائے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ جب تک مزاحمت نہیں ہوگی مسائل حل نہیں ہونگے،ریاست پختونوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوئی ہے،ہم نے حکومت سے سفارش کی کہ اداروں کوجوابدہ بنانے کے لئے قوانین بنائے جائیں۔سیاسی رہنما بشری گوہرنے کہاکہ سیاسی جماعتیں پنڈی سے تعلق رکھتی ہیں وہ مسنگ پرسنزکی بات کیوں کریں گی،ملک میں غیراعلانیہ بدترین مارشل لالگی ہوئی ہے۔
مہنازالرحمان نے کہاکہ ملک کے عوام کوان کے بنیادی حقوق دینے پڑیں گے،جب گھرکے مرد غائب ہوجاتے ہیں توعورتیں زندھ ہی مرجاتی ہیں،ریاستی اداروں کاکام سیاست کرنا نہیں سرحدیں سنبھالنا ہے،پس پردہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔سینیٹرعثمان کاکڑنے کہاکہ ہمیں معلوم ہے کہ لاپتہ افراد کو کس نے غائب کیاہے،ملک کااہم مسئلہ قومی بالادستی ہے،بلوچ اپنے وسائل پراختیارچاہتے ہیں۔
ہیومین رائٹس کے چیر مین اسد بٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مسنگ پرسن کے ایشو پرریاستی ادارے خاموش ہیں،مسنگ پرسن کا مسئلہ انتھائی سنگین ہے،جو لوگ وفاق کے خلاف ہیں ان لوگوں کو غائب کر دیا جاتاہے مسنگ پرسن کے گھروالے کہتے ہمارے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے،سیاسی جماعتیں مسنگ پرسنزکے مسئلیپراپناموقف واضع کریں۔
معاشی ماہرڈاکٹرقیصربنگالی نے کہاکہ ریاست پرخطرات منڈلارہے ہیں،اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی نوعیت بدلی جارہی ہے،سندھ اسیمبلی اسٹیٹ بینک بل کے خلاف قرارداد منظورکرے۔بلوچ قوم پرست رہنما ماما قدیربلوچ نے کہاکہ زندہ انسانوں کاگم ہوجانا سب سے بڑامسئلہ ہے،اٹھانے والے غیب سے نہیں آتے ہیں،میرے بیٹے کی جب لاش ملی اس دن میں نے مسنگ پرسن کی آواز بنے کا فیصلہ کیا، اگرکوئی مجرم ہے تو مملکت اس کواپنے قوانین کے تحت سزادے،جب ریاستی ادارے نہیں سنیں گے تومجبورن عالمی اداروں کوکہنا پڑتا ہے۔
نیشنل پارٹی کے ڈاکٹراسحاق بلوچ کا کہنا تھا کہا گیا بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سردارہیں،آواراں میں ڈی سی کاآفس نہیں تھا،سترسالوں میں ایک میڈیکل کالج یایونیورسٹی بنی وہ سرداروں کے دورمیں بنے۔ سماجی رہنما شیماکرمانی نے کہاکہ ہم خواتین اب آنسونہیں بہائیں گی،ہم ان عورتوں کے ساتھ ہیں جن کے پیارے گم کئے گئے ہیں،تاریخ اٹھاکردیکھ لیں جب عورتیں باہرنکلی ہیں حالات بدلے ہیں۔