کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء و رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا ہے حکومتی عدم توجہی کے سبب گزشتہ تین سالوں سے بلوچستان معاشی، معاشرتی، مالی اور روزگار کے معاملات میں زوال کا شکار ہے، تعلیمی بحران کی وجہ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی ہے، گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن اساتذہ کی بحالی کیلئے اسمبلی فلور پر مدلل انداز میں آواز اٹھا رہے ہیں۔
مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے، ان۔ خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن اساتذہ کے احتجاجی دھرنے کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو اور رکن صوبائی اسمبلی انجینئر یونس عزیز زہری بھی ان کے ہمراہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 25 لاکھ کے قریب بچے تعلیم سے محروم ہیں اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈھائی سو سے زائد اسکول بند جبکہ پانچ ہزار اسکولوں میں شیلٹر نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن کے تحت 2016 میں 1400 سو سے زائد اساتذہ کو بھرتی کیا گیا جن میں اکثر خواتین اساتذہ شامل ہیں باعث تشویش امر یہ ہے کہ ان اساتذہ کو تاحال مستقل نہیں کیا گیا۔
اور وہ اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں انہوں نے کہا کہ حکومتی اراکین نے متعدد مرتبہ ان کے ساتھ وعدے کئے مگر ان کا مسئلہ حل نہیں کیا اور اپنے وعدے بھول گئے، موجودہ صوبائی حکومت وہ حکومت نہیں جس کو اپنے عوام کااحساس ہو یہ وہ لوگ ہیں جن کے اپنے گھر میں پانی اور بجلی نہیں ہوتی اور ان کے اپنے علاقے کے ہسپتالوں میں ٹارچ کی روشنی میں مریضوں کے آپریشن کئے جاتے ہیں۔
انہوں یقین دھانی کرائی کہ ہم خواتین اساتذہ کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے صوبائی اسمبلی فلور پر مسئلہ حل کرنے کیلئے مدلل انداز میں بات کررہے ہیں اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوا تو عدلیہ سے رجوع کریں گے۔ بعد ازاں انہوں نے سی اینڈ ڈبلیو ملازمین اور جونئیر اساتذہ کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کر کیان سے بھی اظہار یکجہتی کیا۔