|

وقتِ اشاعت :   March 24 – 2021

بلوچستان میں گورننس کی کارکردگی کا گزشتہ دودہائیوں سے حقیقی بنیادوں پر جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ بلوچستان کے ساتھ وفاقی حکومتوں کا رویہ جورہا ہے وہ اپنی جگہ ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کو صرف اپنے لئے ایک منافع بخش صوبہ سمجھ کر یہاں کے میگاپروجیکٹس سے منافع ہی حاصل کیا ہے اور اس کے بدلے بلوچستان کو کاغذی اور اعلانات کی حد تک ترقی کے اس مقام تک پہنچایا ہے کہ جہاں پر آج امریکہ اور مغربی ممالک ہیں ۔یہ دعوے ہردور میں سننے کو ملتے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا اب ازالہ کیاجائے گا۔

اور وہ تمام حقوق بلوچستان کو دیئے جائینگے جس کا شکوہ ہمیشہ بلوچستان کی عوام کو رہا ہے ۔بہرحال بلوچستان کی عوام بیچارے شکوہ کس کے سامنے رکھتے ہیں ہاں جس فورم تک ان کو رسائی ملتی ہے وہاں اپنی فریاد سناتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ شاید کچھ احساس حکمرانوں کو ہوجائے مگر یہ امید بھی اب بلوچستان کی عوام چھوڑ چکی ہے کہ ان کی زندگیوں میںکوئی تبدیلی آئے گی۔ اس کی ذمہ دار اگر وفاقی حکومتیں رہی ہیں تو اس میں ایک بڑاحصہ صوبائی حکومتوں کابھی ہے کیونکہ صوبائی بجٹ میں جتنی رقم عوام کی ترقی وفلاح وبہبود کیلئے مختص کی جاتی ہے توکتنے ایم پی ایز نے نیک نیتی کے ساتھ اپنے حلقوں میں وہ رقم خرچ کی ہے۔

اور تھوڑی بہت ترقیاتی کام کیے ہیں۔ آج بھی بلوچستان کے تمام اضلاع تعلیم،صحت، پانی، بجلی، گیس، سیوریج ، مواصلات سے مکمل محروم ہیں ایم پی ایز فنڈز کا حساب تک نہیں جو عرصہ دراز سے ایم پی ایز حضرات ترقی کی مد میں لیتے آرہے ہیں ،کہاں اور کس جگہ وہ فنڈز خرچ کئے گئے کسی کو جواب دہ وہ خود کو نہیں سمجھتے۔ اگر وزرء اور ایم پی ایزصرف اپنے حصہ میں آنے والے ترقیاتی فنڈز اپنے حلقوں پر ایمانداری کے ساتھ خرچ کرتے تو شاید بلوچستان کی عوام کے چند مسائل تو حل ہوجاتے مگر المیہ یہ ہے کہ یہاں پر وزراء کی فوج عرصہ دراز سے پارلیمنٹ میں براجمان ہے۔

ان کی صرف گزشتہ چند سالوں کی کارکردگی کو پرکھاجائے تو نتائج سامنے آجائینگے کہ انہوں نے بلوچستان کے ساتھ کس طرح کی ظلم وزیادتی کی ہے جس صوبے کے لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہوں اور تعلیمی ادارے زبوں حالی شکار ہوں تو کس طرح سے بلوچستان کی آنے والی نسل ترقی میں کردار ادا کرے گی ۔البتہ حکمرانوں کی تقاریر اور بیانات سے تو آج کا نوجوان ترقی کے عمل میں ریکارڈ توڑ کارکردگی دکھارہا ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ نوجوان ڈگریاںہاتھوں میں لے کر در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اسامیاں خالی ہونے کے باوجود نوجوانوں کو ملازمت تک نہیں ملتی۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ بلوچستان کے نام پر جعلی ڈومیسائل بناکر دیگر صوبوں کے لوگ یہاں کی ملازمتوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں مگر ان شخصیات کا احتساب نہیں کیا گیا جو اس گورکھ دھندے میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔ بہرحال یہ تمام احوال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان صاحب نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کی وفاقی کابینہ میں نمائندگی بڑھائی جائے، ہم صرف دو کی بات نہیں کرتے،ہماری اور اتحادی جماعتوں سے وفاقی کابینہ میں بلوچستان سے کم ازکم پانچ وزیر ہونے چاہئیں،اس وقت صرف ایک نمائندہ ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ایک بار پھر وہی جملہ دہرایا جو ماضی کے وزرائے اعلیٰ ہر فورم پر کہتے آئے ہیں کہ ملک کی آنے والی ترقی کے بڑے وسائل بلوچستان میں موجود ہیں ،معدنی ذخائر،ساحل کا بھی ذکر وزیراعلیٰ نے کیا کہ کس طرح سے ملکی ترقی میں بلوچستان آنے والے وقت میں اہم کردار ادا کرنے جارہا ہے تو لہٰذا بلوچستان کی نمائندگی بڑھانے کا فارمولا بلوچستان اور پاکستان کی معیشت کو بہتر کریگا حالانکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ن لیگ کے دور میں وفاقی وزیر پیٹرولیم رہ چکے ہیں اور ان کی یہ بات آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ وفاقی کابینہ میں ان سے رائے تک نہیں لی جاتی تھی۔

بلوچستان سے متعلق فیصلوں میں اعتماد میں بھی نہیں لیاجاتا تھا بلکہ فیصلے کرکے حکم صادر فرماتے تھے۔ اس لئے پہلے ہی اس بات کا ذکر کیا گیا کہ وفاقی حکومتوں کی ترجیح کبھی بلوچستان نہیں رہی ہے محض دعوؤں کی حد تک وہ بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کی بات کرتے ہیں مگر عملاََ کوئی بڑا منصوبہ بلوچستان کو دیتے ہی نہیں۔ کیاوفاقی کابینہ میں بلوچستان کی نمائندگی زیادہ ہونے کے بعد بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا جو کہ محض خام خیالی ہے اگر وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی کیلئے کوشاں ہے تو بغیر وزارتوں کے بھی وہ بلوچستان میں بہت کچھ کرسکتی ہے۔

یہ بات وزیراعلیٰ بلوچستان خود بھی جانتے ہیںمگر بدقسمتی یہی ہے کہ صوبے کے اپنے وزراء اور ایم پی ایز ہی اپنے لوگوں اور حلقوں کے ساتھ مخلص نہیں تو وفاق کیونکر بلوچستان کو سنجیدہ لے گا۔ گھر کو پہلے گھر کے حکمرانوں کو ہی ٹھیک کرنا ہوگا تب جاکر ان کا شکوہ وفاقی حکومتوں کے سامنے وزن رکھے گا جو ایک تلخ حقیقت ہے اور اس پر خود صوبہ کے ذمہ داران کو سوچنا چاہئے کہ بلوچستان کو مزید ستر سال پیچھے دھکیلنا ہے یا پھر حقیقی معنوں میں یہاں تبدیلی لاتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ عوام کے پیسے انہی پر خرچ کئے جائینگے تاکہ ان کی زندگی میں تھوڑی بہت تبدیلی آسکے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان صاحب اپنا مدعابیشک وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھیں مگر ساتھ ہی کابینہ اور اسمبلی سے منظور اسکیمات کا آؤٹ پٹ بھی لیں کہ اب تک ان میں کتنی پیشرفت ہوئی ہے اور عوام اس سے کتنا فائدہ اٹھارہے ہیں؟