اسلام آباد ہائی کورٹ نے صادق سنجرانی کے بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کی درخواست مسترد کر دی ۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے متعلق محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کردیا ۔عدالت نے تحریری فیصلے میں صادق سنجرانی کو ہٹانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت توقع رکھتی ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا اور پارلیمنٹ کے مسائل پارلیمنٹ کے اندر ہی حل کیے جائیں گے۔
آرٹیکل 69 کے تحت عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی، چیئرمین سینیٹ الیکشن سینیٹ کا اندرونی معاملہ ہے، الیکشن کا ساراعمل ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے کہا کہ صدر نے سینیٹر مظفر حسین شاہ کو الیکشن میں پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ چیئرمین سینیٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کی کوئی شمولیت نہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ چیئرمین سینیٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمان کی اندرونی کارروائی کے استحقاق کے آئین آرٹیکل 69 سے کیسے نکلیں گے ؟ پارلیمان کی اندرونی کارروائی عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے ؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر طریقہ کار میں کوئی بے ضابطگی ہو تو وہ عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکتی۔ رولز میں بیلٹ پیپر یا ووٹ سے متعلق کچھ نہیں، رولز اس حوالے سے خاموش ہیں۔ سیکرٹری سینیٹ نے ہدایات دیں کہ خانے کے اندر کہیں بھی مہر لگائی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ شیری رحمان، سعید غنی اور میں نے بیان حلفی عدالت میں دیاہے کہ سیکرٹری سینیٹ نے خانے کے اندر کہیں بھی مہر لگانے کا کہا تھا ۔
اور سیکرٹری سینیٹ کے کہنے کے بعد ہم نے اپنے سینیٹرز کو کہیں بھی مہر لگانے کا کہا۔عدالت کی جانب سے فیصلہ آنے کے بعد یوسف رضاگیلانی اپنے قانونی مشیروں کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں اور اب سپریم کورٹ جانے کے حوالے سے سوچ بچار کررہے ہیں ۔ اس سے قبل پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے چیئرمین سینیٹ الیکشن کی نشست پر ہارنے کے بعد یہ بات دہرائی تھی کہ عدالت کی جانب سے بعض ججمنٹ موجود ہیں جن میں یہ بتایاگیا ہے کہ ووٹرز کی جانب سے اگر امیدوار کے نام یا نشان پر مہر لگائی جائے ۔
تو اسے قبول کرنا چاہئے ووٹرز کی نیت پر شک نہیں ہونی چاہئے مگر قانونی لحاظ سے مزید اس کو پرکھنا ہوگا کہ عدالت اس میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ اب جو ہائیکورٹ کافیصلہ ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے تو اسے وہیں پر حل ہونا چاہئے تو اب اپوزیشن جماعتیں کیا حکمت عملی اپنائیں گی مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یوسف رضاگیلانی بیلٹ پیپر پر اسی جگہ ہی سات ووٹ کے مہر لگائے گئے ہیں کیا یہ اپوزیشن سینیٹ ارکان کی جانب سے جان بوجھ کر نہیں کیا گیا، کیا اس عمل سے ووٹ مسترد ہوسکتے ہیں؟
البتہ بہت سے ابہام موجود ہیں جن پر الیکشن کے بعد سے ہی سوالات اٹھائے جارہے ہیں جس طرح سے مولانا عبدالغفور حیدری کی شکست ہوئی اس میں تو ووٹ ہی حکومتی امیدوار کے حصہ میں آئے یعنی کچھ تو دال میں کالا ضرور ہے مگر کیا کریں ستم ظریفی یہ ہے کہ حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں پھر یوسف رضاگیلانی کی شکست کے بعد اپوزیشن کورٹ جاتی ہے مگر کسی جماعت میں یہ ہمت نہیںہوتی کہ وہ اپنے ارکان کا محاسبہ کرتے ہوئے انہیں اپنی صفوں سے نکال دیں مگروہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔
نہ جانے کونسی مجبوریاں ان کے سامنے آجاتی ہیں۔ بہرحال سیاسی جماعتیں خود احتسابی اور حقیقی سیاسی جماعت بننے کی بجائے ملبہ کسی اورپر ڈال دیتے ہیں اور اسی طرح اپنی سیاسی روش کوجاری رکھتے ہیں جس سے نہ پارلیمانی نظام میں شفافیت آئے گی اور نہ ہی جمہوریت کا بول بالا کرنے کے دعوے سچ میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔