ملک میں معاشی استحکام اور ترقی کے اہداف کا دارومدار معاشی پالیسیوںپر ہے جس کیلئے اپنی پیداوار اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے معیشت کو بہتر سمت پر لے جایا جاسکتا ہے مگر بدقسمتی سے ہماری معیشت کو سہارا دینے اور سنبھالنے کیلئے قرض لینے کی پالیسی جاری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرض جتنا لیاجائے گا اس کی ادائیگی سود سمیت کی جائے گی اوراس کی وضاحت دینے سے حکمران ہر وقت قاصر ہی دکھائی دیتے ہیں کہ قرض اور سود کی ادائیگی عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھانے سے ہی ادا کی جائے گی اور اس کا اعتراف خود حکمران کرتے آئے ہیں۔
کہ ملک قرض سے نہیں چل سکتا جتنا قرض لینگے اتنی ہی مہنگائی بڑھتی جائے گی اور آئی ایم ایف کے شرائط کے تحت معاشی پالیسی چلانی پڑے گی وگرنہ آئی ایم ایف قرض نہیں دے گا ۔لازمی بات ہے کہ ایک عالمی ادارہ اپنے مفادات کے تحت قرض فراہم کرتا ہے اور اس کے اپنے اہداف اور شرائط ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا قرض لینے والے پر لازم ہوتا ہے، بہرحال اب یہ توقع اور امید کرنا کہ پاکستان قرض سے چھٹکارا پاکر اپنی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے اپنے ہی وسائل پر انحصار کرے گا یہ محض ایک دعوے کے سواکچھ نہیں۔ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت سابقہ ادوار میں قرض کی شدید ترین مخالف تھی اور اپنے بڑے بڑے جلسوں میں یہ بات پی ٹی آئی لیڈران کرتے آئے ہیں۔
کہ ملکی معیشت کو سنبھالنے کیلئے ہم کسی سے کوئی قرض اوربھیک نہیں مانگیں گے بلکہ ایک ایسی معاشی پالیسی لائینگے کہ ہم اپنے ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے معیشت کو بہتر بنائینگے بلکہ یہاں تک دعوے کئے گئے کہ بیرون ملک سے لوگ ملازمت کیلئے پاکستان کا رخ کرینگے ۔یہ تمام دعوے ریکارڈ پر آج بھی موجود ہیں مگر ان تمام دعوؤں کی نفی کی گئی اور آج بھی بھاری بھرکم قرضے لئے جارہے ہیں جس کا جواز یہ پیش کیاجارہا ہے کہ ماضی کے قرضوں کو اتارنے اور ابترمعیشت کو بہتر بنانے کیلئے قرض لے رہے ہیںلیکن قرض لیکر قرض اتارکر معیشت کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ بہرحال ایک بار پھر عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق کورونا وبا کے چیلنج کے باوجود پاکستان کی معیشت کی کارکردگی تسلی بخش رہی۔ انسانی جانوں کو بچانے اور معیشت کی بہتری کیلئے پاکستا ن کی پالیسیاں بہتر رہیں۔پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی قسط بجٹ سپورٹ کے طور پر جاری کی جائے گی۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق انسانی جانوں کو بچانے اور معیشت کی مدد کرنے کے لئے پاکستان کی پالیسیاں مبصرانہ رہیں۔آئی ایم ایف نے فروری 2021 میں پاکستان کا قرض پروگرام بحال کیا تھا۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ریفارم پروگرام پر اتفاق ہوا تھا۔
کورونا وائرس کے اخراجات کا آڈٹ کرانے اور بجلی پر سبسڈی کم کرنے پر بھی اتفاق ہوا تھا۔فروری میں پاکستان کی جانب سے سرکاری اداروں کے نقصانات کو کم کرنے کیلئے قانون سازی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔آئی ایم ایف کو بتایا گیا تھا کہ قرض پروگرام کے دیگر اہداف حاصل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ حکومت نیپرا اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کیلئے قوانین تبدیل کررہی ہے۔بعد ازاں 9 مارچ کو وفاقی کابینہ نے اسٹیٹ بینک سے متعلق تین بڑے قوانین منظور کیے۔
نئے قوانین کے مطابق اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنایا جائے گا، اس کا مرکزی کام ملک میں مہنگائی کم کرنا ہوگا اور اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔اسٹیٹ بینک کے متعلق قوانین کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دی۔ بہرحال 50کروڑ ڈالر کا قرض ملنے کے بعد مہنگائی کاایک نیا طوفان ضرور آئے گا ،اسٹیٹ بینک کس طرح کی پالیسی اپناتے ہوئے مہنگائی پر قابوپائے گا یہ بھی دیکھنا پڑے گا اور پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہی کیلئے کیونکرحاضر ہوگی۔ بہرحال جس طرح سے معیشت کو چلایاجارہا ہے اس سے مستقبل میں مزید قرض کابوجھ نہ صرف بڑھے گا بلکہ عام آدمی پر اس کا براہ راست اثر پڑے گا،جب تک اپنی پیداواری صلاحیت سمیت وسائل کو معیشت کیلئے کارآمد نہیں بنایا جائے گا معاشی بحران کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔