|

وقتِ اشاعت :   March 27 – 2021

یکم جولائی 1948کو پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمدعلی جناح نے کرنسی نوٹوں کے اجرا اور ملک کے مالیاتی استحکام کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کا حکم نامہ جاری کیا۔ کرنسی اور قرضوں کے لین دین کے ضابطے وضع کرنا بھی اس ادارے کی ذمے داریوںمیں شامل تھا۔ 1956میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ جاری کیا گیا جس کے مطابق اسٹیٹ بینک کو ملک کے مفاد میں پیداواری وسائل کے استفادے سے شرح نمو کی دیکھ بھال کے لیے قرضوں کے لین دین اور مالیاتی امور کی ضابطہ بندی کا ذمے دار بنایا گیا۔

1980کی دہائی میں عالمی سطح پر نیو لبرل ماہرین اقتصادیات اور پالیسی سازوں نے معیشت میں ریاستی کردار پر از سر نو غور شروع کیا۔ متعدد ممالک کے اسٹیٹ بینکوں کی نجکاری اسی دور میں شروع ہوئی تاہم امریکا، جرمنی اور چین جیسے بڑے ممالک نے اپنی کرنسیوں اور معیشت کے استحکام کے لیے اپنے اپنے اسٹیٹ بینک کا فیصلہ کُن کردار برقرار رکھا۔

1956کے بعد سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اپنی یہ چار بنیادی ذمے داریاں ادا کررہا ہے؛
1) مالیاتی پالیسی کی تشکیل اور اس کا نفاذ۔
2) بینکوں اور مالیاتی اداروں کی ضابطہ بندی اور نگرانی۔
3) غیر ملکی زر مبادلہ کا انتظام ۔
4) ادائیگیوں اور کھاتوں کے امور نمٹانا۔

10مارچ کو وفاقی کابینہ نے آئی ایم ایف کی جانب سے 6ارب ڈالر کے مالیاتی پروگرام کی 30شرائط میں شامل ایک کو پورا کرنے کے لیے مناسب غور و فکر کے بغیر اسٹیٹ بینک کے لیے حتمی اختیارات کی منظوری دے دی۔ اس حوالے سے منظور ہونے والی دستاویز انہی تجاویز پر مشتمل ہے جو گزشتہ برس اسٹیٹ بینک نے وزارت خزانہ کو ارسال کی تھیں اور جس میں تجویز کردہ بہت سی تبدیلیوں کی توثیق نہیں کی گئی تھی۔ گزشتہ برس اپریل میں کابینہ کی کمیٹی برائے امور قانون سازی(سی سی ایل سی) نے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث اس کی توثیق نہیں کی تھی۔

اس بار وزارت خزانہ نے معاملے کی ’’ہنگامی‘‘ نوعیت کو بنیاد بنا کر یہ دستاویز سی سی ایل سی کو بائی پاس کرکے براہ راست وفاقی کابینہ کو بھجوا دی۔ پہلے سے موجود قوانین میں اسٹیٹ بینک کو حاصل اختیارات میں توسیع کی گئی جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ مالیات اور زرمبادلہ سے متعلق فیصلہ سازی کے ساتھ اسے افراطِ زر کنٹرول کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا(لیکن اس حوالے سے حدود کا تعین نہیں کیا گیا)۔ اس میں قیمتوں کا تعین شامل نہیں جس کی وجہ سے معاشی استحکام اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے ثانوی مقاصد میں شامل ہوگیا۔

حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی معاونت کو اسٹیٹ بینک کے ’’ذیلی مقاصد‘‘ میں شامل کردیا گیا ہے جس کے بعد یہ ادارہ اب ملک کے معاشی نمو کے لیے ذمے دار نہیں رہا۔ حالیہ قانون کی منظوری کے بعد حکومت یا حکومت کے زیر ملکیت اداروں یا کسی بھی سرکاری ادارے کو براہ راست قرض یا ضمانت فراہم کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب حکومت مثلاً بشمول مسلح افواج ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی۔

ان تبدیلیوں کے بعد عملی طور پر وزارت خزانہ کے بجائے اسٹیٹ بینک حکومت کے معاشی فیصلہ سازی کرے گا اور اس حوالے سے وزیر اعظم اور کابینہ کو بھی اختیارات حاصل نہیں ہوں گے۔ اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز میں سیکریٹری خزانہ کو نکال کر اس ادارے پر حکومت کا آخری اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ جرمنی میں وفاقی اور اسٹیٹ بینک آج بھی ریاستی و حکومتی بینک کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ان تبدیلیوں کے بعد اب گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت نوآبادیاتی دور میں حکمرانی کرنے والے وائسرائے کی جیسی ہوجائے گی جو اب آئی ایم ایف کا نمائندہ ہوگا۔

گورنر اور نائب گورنر کی مراعات، ملازمت سے متعلق قواعد و ضوابط کا فیصلہ اسٹیٹ بینک کا بورڈ آف گورنرز طے کرے گا۔ تنخواہ کے تعین کے لیے پاکستان کی مالیاتی اداروں میں رائج تنخواہوں کو پیش نظر رکھا جائے گا جو بعض مرتبہ کروڑوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک اب چوں کہ اپنی تنخواہوں اور سفر سمیت دیگر اخراجات کے لیے بجٹ بنانے میں خود مختار ہوگا اور شخصیات کی رجحانات کے مطابق ان کا تعین ہوگا تو اس کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ اسٹیٹ بینک کے انتظامی امور سے متعلق جوابدہی نہ رکھنا بہت بڑی غلطی ہے۔

سیکریٹری خزانہ کامران علی افضل نے شق 39کا حوالہ دے کر اس خامی کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کی کوشش کی ہے تاہم بل کی یہ شق احتساب کی ضمانت نہیں دیتی۔ اس شق کے مطابق ’’گورنر(اسٹیٹ بینک) بینک کے مقاصد میں کامیابی، مالیاتی پالیسی کے نفاذ ، معاشی صورت حال اور اقتصادی نظام سے متعلق سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گا۔ علاوہ ازیں ، پارلیمنٹ ضرورت پڑنے پر کسی بھی سینئیر افسر کو اضافی وقت کے لیے طلب کرسکتی ہے۔‘‘ جوابدہی کے نام پر یہ مذاق ہے جس سے کامران افضل بھی اچھی طرح واقف ہیں۔

پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹ پیش کرنے کو بمشکل ’جوابدہی‘ قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے گورنر سمیت اسٹیٹ بینک میں کسی کے خلاف تحقیقات کا اختیار نہ رکھتے ہوں۔ بعض موجودہ اور حتی ٰکہ سابقہ حکام کو، جن میں سے بعد بڑے جرائم کے مرتکب ہیں، بھی استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ اس بل کے مطابق ’’بینک ، بورڈ اور ڈائریکٹرز کے ارکان، گورنر، نائب گورنر کے خلاف ہرجانے کے لیے کوئی دعویٰ، مقدمہ یا کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی جاسکے گی۔‘‘

لندن میں خود ساختہ جلا وطن اسحاق ڈار کے مطابق یہ بل اسٹیٹ بینک کو معاشی اعتبار سے ایسی بلا بنادے گا جو قومی خود مختاری کو نگل جائے گی اور ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کا غلام بنادے گی۔ ٹرانسپیریسی انٹرنیشنل کے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے حکومت کو اس بل کے واضح خطرات سے خبردار کیا ہے۔ بطور وزیر خزانہ اور عملاً نائب وزیر اعظم رہنے والے اسحاق ڈار اپنے دور میں اسٹیٹ بینک، توانائی کے شعبے اور سرکاری اداروں اور ایف بی آر سے متعلق اصلاحات کرنے میں ناکام رہے۔

موجودہ بل اسٹیٹ بینک کے ایک کے بعد دوسرے دو گورنروں کے ساتھ اختیار کیے گئے اسحاق ڈار کے سفاکانہ رویے کا نتیجہ ہے۔ وہ اپنے من پسند لوگوں کے مفادات کے لیے اسٹیٹ بینک کو دیوالیہ کرنے کے درپے تھے۔ اسحق ڈار نے اپنے رفقائے کار اور اہم وزارتوں کے سرکاری افسران کی تجاویز پر بھی کبھی دھیان نہیں دیا۔ مثبت معاشی تصویر دکھانے کے لیے اسحاق ڈار نے ڈیٹا میں ہیر پھیر کی، ڈالر کے مقابل پاکستانی روپے کی قدر بڑھانے کے لیے زرمبادلہ کا بے دریغ استعمال کیا۔

احتساب سے بچنے کے لیے بیرون ملک بیٹھ کر ایسے وزیر اعظم پر تنقید کرنا اسحاق ڈار کے لیے آسان ہے جو تین سال بعد بھی ان معاشی مسائل سے نبردآزما ہے جو ان کی کارستانیوں کا نتیجہ ہیں۔ اسٹیٹ بینک کو ایک خود مختار ادارہ ہونا چاہیے لیکن اسے احتساب سے استثنیٰ دینا جب کہ ملک کے وزیر اعظم کا بھی احتساب ہوسکتا ہو اس ادارے کو حکومت اور وزیر اعظم سے بالاتربنانے کے مترادف ہے۔ احتساب کا راستہ روکنا آئی ایم کو بھی مطلوب نہیں ہوگا، اس کے نتیجے میں کرپشن کی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے مسائل پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے کی بنیادی وجوہ ہیں۔

ایف اے ٹی ایف کی 40شرائط پوری کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کا کردار بہت اہم ہے۔ اسٹیٹ بینک کو احتساب کے دائرے سے نکال دینے سے ہمیں گرے لسٹ سے نکلنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ گورنر رضا باقر نے اسٹیٹ بینک کو مؤثر اور فعال بنایا، کام یابی سے ایسے اقدامات کیے جن سے معیشت وبا کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہی۔ یہ ان کی واحد کام یابی نہیں تاہم ان کی اچھی کارکردگی کی بڑی مثال ہے۔ انہوں نے مصر میں جو کامیابیاں حاصل کی تھیں انہیں پاکستان میں زیادہ مؤثر انداز سے دہرایا ہے۔

وبا سے پیدا ہونے والے حالات کے باعث میرے ہزاروں ملازمین میں سے 1500بے یارومددگار ہوسکتے تھے۔ لیکن اسٹیٹ بینک کی ’’سیلری ری فنانس اسکیم‘‘ اور حبیب میٹرو کی مدد سے ہم ان کا روزگار اور اپنی کمپنی کو بچانے میں کامیاب رہے۔ دیگر لاکھوں پاکستانیوں کا روزگار بھی اسی طرح محفوظ رہا۔ ظاہر ہے کہ رضا باقر کے لیے یہ سب کچھ تنہا کرنا ممکن نہیں تھا ، انہوں نے چند ایک استثنیٰ کے ساتھ ایک اچھی ٹیم کا انتخاب کیا تبھی یہ ممکن ہوا۔ بلاشبہ اسٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہونی چاہیے لیکن نگرانی اور احتساب سے پیدا ہونے والے توازن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس حوالے سے سخت گیری اختیار کرنے کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

حالیہ قانون سے کئی سوالات اور ا ندیشے جنم لیتے ہیں۔ کہیں رضا باقر کے خلاف عوامی ردعمل پیدا کرنے کے لیے اس بل کی تشہیر تو نہیں کی گئی، کیوں کہ پاکستان میں میرٹ ہی سب سے بڑی نااہلی تصور ہوتا ہے؟ رضا باقر مثالی قابلیت اور دیانت کے حامل گورنر ہیں تاہم اس وقت کیا ہوگا جب اسحاق ڈار جیسا کوئی وزیر خزانہ اس منصب پر اپنے من پسند شخص کو لانے میں کام یاب ہوجائے گا؟ اور اس کا احتساب بھی ممکن نہیں ہوگا؟ اس سے قبل اپنے دور صدارت میں زرداری نے فرماں برداری سے انکار کرنے والے اسٹیٹ بینک کے دو قابل اور دیانت دار گورنروں کو برطرف کردیا تھا۔

ایسے عناصر اب بھی موجود ہیں جو بلاچوں چرا اسٹیٹ بینک میں اسحاق ڈار کی ہر بات ماننے کے لیے تیار تھے۔ نہیںمعلوم انہیں کوئی خوف تھا یا لالچ! رضا باقر موجودہ تبدیلیوں کو قابل قبول حالت میں لانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس قانون پر مزید بحث اور بلند خیالی کی ضرورت ہے وگرنہ اس پر آنے والا ردعمل پاکستان کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ ہمیں ایک آزاد اسٹیٹ بینک کی ضرورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ریاست سے بالاتر بنا دیا جائے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)