|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2021

گوادر: وسائل پر اختیار دینے اور حقیقی جمہوریت کے قیام سے بلوچستان کی معاشی ترقی ممکن ہے۔ گوادر کی ترقی کے لئے مقامی آبادی کے خدشات کو دور کرنا ہوگا۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور سی پیک کے آنے کے بعد مقامی آبادی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔

ان خیالات کا اظہار نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سنیٹر محمد اکرم دشتی، بی این پی (عوامی) کے مرکزی رہنماء ایڈوکیٹ سعید فیض، بی این پی (مینگل) کے سینئر رہنماء حسین واڈیلہ، پی پی پی کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری اعجاز حسین اور سابقہ ڈسٹرکٹ چیئرمین بابو گلاب نے سنٹر ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے زیر اہتمام گوادر ڈائیلاگ کے نام پر بلوچستان کی ترقی مگر کیسے؟

کے عنوان سے گوادر پریس کلب میں منعقدہ نشست سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ سنیٹر کہدہ اکرم دشتی کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، بلوچستان میں ترقی کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن ترقی کے پس پردہ عزائم اور ہوتے ہیں۔ گوادر پورٹ اور یہاں کے میگا پروجیکٹس کی مثال لے لیں مگر اس میں مقامی آبادی کہاں کھڑی ہے۔

وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہاکہ ترقی کے لئے اعتماد سازی کی فضاء بحال کرنی ہوگی، دنیا میں جس جگہ ترقی آئی ہے اس سے پہلے وہاں کے لوگوں کی شرکت کو اولین ترجیح دی گئی ہے، بد قسمتی سے بلوچستان بالخصوص گوادر کی ترقی کے عمل میں خدشات زیادہ نمایاں ہیں۔ گوادر کا بڑا نام ہے لیکن یہاں کے لوگوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں، پانی اور بجلی کے مسائل میگا پروجیکٹس کے آنے کے بعد بھی حل نہ ہوسکے۔

مقامی ماہی گیروں کو شکار پر جانے کی آزادی حاصل نہیں۔ این پی (عوامی) کے مرکزی رہنماء ایڈوکیٹ سعید فیض نے کہا کہ ترقی مستحکم اور پائیدار منصوبہ بندی کا تقاضا کرتاہے لیکن بحیثیت قوم یہ ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان میں منصوبہ سازی کا فقدان ہے اور بدعنوانی سمیت لوگوں کو اعتماد میں نہیں لینے کی وجہ سے ترقی کے حقیقی ثمرات عام آدمی کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف عمل بن کر رہ گیا ہے۔

ریکوڈک اور سیندک پروجیکٹ بلوچستان کے اہم معدنی وسائل ہیں جس سے پورے بلوچستان میں غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے لیکن ان پر صوبے کے عوام کا کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کہاکہ گوادر یا بلوچستان کی ترقی کے لئے سب سے پہلے بد اعتمادی کی فضاء کو ختم اور وسائل پر اختیار تسلیم کرنا ہوگا۔ بی این پی (مینگل) کے سینئر رہنماء حسین واڈیلہ نے کہا کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ترقی کے عمل میں لوگوں کو دور رکھنے کا عمل احساس محرومی کو جنم دے رہا ہے۔

ان عوامل کو دور کئے بغیر لوگوں کی بے چینیوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سابقہ ڈسٹرکٹ چیئرمین بابو گلاب نے کہا کہ گوادر کی ترقی کے تناظر میں اب تک منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ ماہی گیری یہاں کی مقامی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس کی ترقی کے لئے بظاہر کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کے اس سفر میں لوگوں کے معاشی مسائل پر توجہ رکھنا ناگزیر ہے جس پر عمل کرنا چاہئے۔

پی پی پی کے صوبائی ڈپٹی جنرل سیکریٹری اعجاز حسین نے کہا کہ پی پی پی نے بلوچستان میں احساس محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے آغاز حقوق پیکیج متعارف کرایا اور این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھایا تاکہ وفاقی اور اس کے اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو۔ انہوں نے کہاکہ گوادر کی ترقی کے تناظر میں مقامی آبادی کے معاشی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

لینڈ ایکویزیشن کے قوانین کے نفاذ کی بجائے لیز پالیسی اختیار کی جائے تاکہ مقامی لوگوں کی حق ملکیت کو تحفظ مل سکے۔ تعلیم اور صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی سمیت انفراسٹرکچر کے نظام کو مقامی آبادی کے لئے بھی پائیدار بنایا جائے۔ نشت میں مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کے رہنماء شریک تھے جس میں نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر فیض نگوری۔

بی این پی (مینگل) کے ماجد سہرابی، پی پی پی کے یوسف فریادی، ن لیگ کے عثمان کلمتی، بی ایس او (پجار) کے رہنماء خیر جان بلوچ، گوادر ماہی گیر اتحاد کے یونس انور اور آرسی ڈی کونسل گوادر کے صدر ناصر رحیم سہرابی شامل تھے جنہوں نے گوادر کی ترقی کے تناظر میں اپنے تجاویز پیش کئے۔ نشست کے سہل کاری کے فرائض سی آر ایس ایس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امتیاز گل، شہزادہ ذوالفقار اور گہرام اسلم نے اداکئے۔