یوسف رضاگیلانی کا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد اب کوئی ابہام نہیں کہ پیپلزپارٹی کامستقبل میں پی ڈی ایم کے ساتھ چلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور انہیں اپنے سیاسی مقاصداپنے طریقے کار سے حاصل کرنا ہے ۔پی ڈی ایم کے فیصلوں کی پیپلزپارٹی کی طرف سے پاسداری نہ کرنا، یوسف رضاگیلانی کا حکومتی حمایت سے بننے والے سینیٹرز کا ووٹ حاصل کرنے سے واضح ہوجاتا ہے اب پیپلزپارٹی کی جانب سے جتنی بھی وضاحتیں دی جائیں انہیں کوئی بھی ذی شعور شخص قبول نہیں کرسکتا کیونکہ یہ طے ہوگیا تھا کہ چیئرمین سینیٹ پیپلزپارٹی، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جمعیت علمائے اسلام جبکہ اپوزیشن لیڈر کیلئے ن لیگ کا امیدوار ہوگا۔
اور اس حوالے سے پی ڈی ایم کی باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور اس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق بھی کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اپوزیشن لیڈر کے بعد پیدا ہونے والی تکرار میں جمعیت علمائے اسلام فی الحال خاموش ہے اور انہوں نے ووٹ کسی کے حق میںنہیں دیا جوکہ بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس وقت پی ڈی ایم کو بھی لیڈکررہے ہیں کیا وہ واضح طور پر اپوزیشن لیڈر کو نہ صرف ووٹ دیتے بلکہ واضح مؤقف سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہتی کہ اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے کیا فیصلہ پی ڈی ایم کے درمیان ہوا تھا۔
بہرحال پیپلزپارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری جو وضاحت دے رہے ہیں اسے ذہنی طور پر قبول کرنا مشکل ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں درحقیقت وہ پی ڈی ایم کے فیصلوں کے بالکل منافی ہے جو پہلے پی ڈی ایم اجلاس میں سینیٹ کے اہم عہدوں کے متعلق اتفاق کیا گیا تھا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے ن لیگ کا امیدوار متنازع تھا جبکہ ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ پیپلز پارٹی کا حق تھا۔بلاول بھٹوزرداری کا کہنا تھا کہ 5 اپریل کو پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس ہو گا۔
جس میں پی ڈی ایم کی جدوجہد کو آگے بڑھانے سے متعلق امور پر غور کریں گے۔یوسف رضا گیلانی کو باپ کے ووٹ پڑنے سے متعلق بلاول بھٹو زرداری کاکہناتھا کہ گزشتہ دنوں سے میڈیا پر اس حوالے سے پروپیگنڈا ہو رہا ہے، آئینی اور جمہوری روایات کے مطابق 21 سینیٹرز کے ساتھ پیپلز پارٹی ایوان بالا میں دوسری بڑی جماعت ہے اس لیے یہ ہمارا جمہوری حق ہے کہ یہ عہدہ ہمارے پاس ہو۔ان کا کہنا تھا کہ میری جماعت کے لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، میں کیسے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا کہ آپ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ نہ دیں۔
اور ن لیگ کے اعظم نذیر تارڑ کو ووٹ دیں جو ایک متنازع امیدوار تھے۔ ن لیگ کے پاس 26 امیدوار تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس بھی 21 سینیٹرز کے علاوہ اے این پی کے دو ممبرز، جماعت اسلامی کے ایک اور فاٹا کے دو سینیٹرز کے ساتھ ہمارے پاس بھی 26 ممبرز بنتے تھے، سینیٹ رولز کے مطابق دو امیدواروں کے برابر ووٹ ہوں تو اس صورت میں زیادہ امیدوار رکھنے والی جماعت کا ہی قائد حزب اختلاف ہوتا ہے۔دوسری جانب مریم نواز کا یوسف رضاگیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے لوگوں نے باپ کے کہنے پر ووٹ دیا۔
صف بندی ہو چکی ہے اور لکیر کھنچ گئی ہے، ایک طرف وہ لوگ کھڑے ہیں جو قربانیاں دے کر عوام اور آئین کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے چھوٹے سے فائدے کے لیے جمہوری روایات کو روند ڈالا، عوام پہچان گئی ہے کہ کس کا کیا بیانیہ ہے۔پیپلز پارٹی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا اس بات کا نہایت افسوس ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے سے عہدے کے لیے جمہوریت کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے، عوام ایک ایک چیز دیکھ رہی ہے کہ کون جدوجہد کر رہا ہے، یہ مسلم لیگ ن کی نہیں ان لوگوں کی شکست ہے جنہوں نے ایک چھوٹے سے عہدے سے فائدہ اٹھایا۔
چھوٹے سے عہدے کے لیے آپ نے باپ سے ووٹ لیے، اگر یہ عہدہ چاہیے تھا تو آپ نواز شریف سے بات کر لیتے، وہ آپ کو ووٹ دے دیتے، آپ نے اْس باپ سے ووٹ لیے جو اپنے باپ کی اجازت کے بغیر کسی کو ووٹ نہیں دیتا۔رہنما ن لیگ کا کہنا تھا دنیا میں شاید یہ پہلی مثال ہے کہ لیڈر آف دی اپوزیشن حکومت سلیکٹ کر رہی ہے۔بہرحال دونوںجماعتوں کے اہم رہنماؤں کے بیانات سامنے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ن لیگ پیپلزپارٹی سے اپنی راہیںجداکرنے کے حوالے سے سخت فیصلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے ۔
کیونکہ پیپلزپارٹی نے تون لیگ سمیت پوری پی ڈی ایم سے ہاتھ کرلی ہے اور جوووٹ یوسف رضاگیلانی کو دیئے گئے ہیں وہ تمام حکومتی حلقوں سے ہمدردی رکھنے والے ارکان ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی ڈی ایم کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے اس معاملے پر بات کی جاتی اور پارٹی پوزیشن کو واضح کیاجاتا کہ کون کس طرف ہے ۔ہم ادھر تم ادھر کا بیک ڈور سیاسی پالیسی عوام کے سامنے آچکی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں ۔مریم نوازکا سخت لہجہ کافی نہیں ہوگا اور نہ ہی بلاول بھٹو زرداری کی وضاحت قابل قبول ہوگی ۔
کہ اتنے بڑے بیانیہ کولیکر چلنے والی جماعت محض چند ایک عہدوں پر ہی بکھرچکی ہے ،حکومت کو گرانے اور وزیراعظم کو گھر بھیجنا ایک غبار تھا جس سے ہوا نکل چکی ہے لہٰذا عوام سے سچ بولا جائے کہ اندرون خانہ پی ڈی ایم کس حد تک مضبوط ہے ۔ البتہ اب پنجاب اور سندھ کی سیاست ہوگی جبکہ مولانافضل الرحمان درمیانی راستہ نکالنے میں شاید کامیاب نہیں ہونگے ۔
اب تک جو تلخی پی ڈی ایم اجلاس میں زرداری کی تقریر کے بعد پیدا ہوگئی تھی اسے تو حل کرنے کے حوالے سے رابطے اور بداعتماد ی کو بحال کرنے کو ذہن ہضم کرسکتا ہے مگر سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کا معاملہ واضح پیغام ہے کہ پیپلزپارٹی زرداری کے فیصلوں کے تحت ہی چلے گی ۔پی ڈی ایم جو بھی پالیسی اور فیصلے کرے گی پیپلزپارٹی کیلئے اس کی اہمیت کچھ خاص نہیں ہوگی۔