|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2021

خضدار: بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) خواتین ونگ کے زیر اہتمام ’’تعلیمی پسماندگی کا ذمہ دار کون ـ‘‘ کے عنوان سے ایک روزہ سیمینار خضدار پریس کلب میں منعقد ہوا ۔ جس کے مہمان خاص بی این پی (عوامی) کے مرکزی رہنماء سابق چیئرمین بی ایس او محی الدین بلوچ تھے۔ تقریب میں ضلع بھر کے سیاسی و سماجی شخصیات اور سیاسی کارکنان و خواتین کو خصوصی دعوت دی گئی تھی ۔

تقریب سے بی این پی (عوامی) کے مرکزی رہنماء محی الدین بلوچ بی این پی عوامی خضدار کے صدر ڈاکٹر عمران میروانی بی این پی (عوامی) خواتین ونگ کی آرگنائزر ندا مینگل جے یوآئی خضدار کے جنرل سیکریٹری مولانا عنایت اللہ رودینی تحریک انصاف خضدار کے رہنماء محبوب کرد جماعت اسلامی خضدار کے صدر مولانا محمد اسلم گزگی ، بی این پی (عوامی) اسٹوڈنٹ ونگ کے صدرنوید مینگل ،بی این پی (عوامی) خضدار کے جنرل سیکریٹری صدام بلوچ ۔

سوشل ایکٹوسٹ ہماء رئیسانی ،پی پی پی خضدار کے صدر سجاد زیب، پروفیسر مان منصور بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء محمد یونس گنگو ، بی این پی (عوامی) خواتین ونگ کی سیکریٹری فائزہ نور و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے ہوئے کہاکہ خضدار اور پورے بلوچستان میں تعلیمی انحطاط ناخواندگی عروج پر ہے ، نئی نسل جہالت کی اندھیرنگریوں میں زندگی بسر کررہی ہے جو کہ المیہ بھی ہے۔

اور تشویشناک امر بھی ، تعلیمی پسماندگی کا ذمہ دار حکومت براہ راست ہے اور انہیںاس کوتاہی اور ذمہ داری کو اپنے سر ضرور لینا ہوگا ، تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس سے قوموں کی ترقی اور ان کا مستقبل وابستہ ہے ہمیں رنگ و نسل اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر تعلیم کے لئے کوششیں بروئے کارلانا ہوگا، حکومت ایک سازش کے تحت خضدار ضلع میں قائم پہلے سے تعلیمی اداروں کو واپس لینے کی کوشش کررہی ہے۔

جس کے خلاف خضدار جھالاوان کے عوام بھر پور انداز میں سیاسی مذاحمت کریں گے ۔مقررین کا کہنا تھاکہ ملک کے دیگر حصوں کی بنسبت خضدار جھالاوان اور پورا صوبہ بلوچستان تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے جہاں بیس سے پچیس لاکھ بچے اسکول نہیں جارہے ہیں اور وہ ناخواندگی کا شکار ہورہے ہیں جب ہماری نئی نسل تعلیم حاصل نہیں کریگی تو اس کا اثر یہ ہوگا یہ صوبہ ترقی نہیں کرسکے گا اور نہ ہی صوبے کو آگے جانے کا موقع ملے گا ۔

آج بی این پی (عوامی) خواتین ونگ خضدار کی جانب سے جس عنوان کے تحت سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے اور اس موضوع پر سب کو سوچ و فکر کا موقع دیاگیا ہے یہ بھی خوش آئندہ عمل ہے کہ یہاں بھی تعلیمی پسماندگی اور ناخواندگی کا غم اور فکر محسوس کیا جارہاہے اور یہ کوششیں کی جارہی ہے کہ تعلیم کو عام کیا جائے جو بچے اسکول نہیں جارہے ہیں انہیں اسکول جانے پر آمادہ اور ان کے والدین کو یہی سوچ و شعور دینے کی کوشش کی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو ضرور تعلیمی اداروں کی جانب روانہ کردیں۔

تاکہ ہم تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ کرسکیں ۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اجتماعی سوچ و فکر کے ذریعے حکومت پر ہم سب مل کر یہ دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں صوبے سے تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کرے۔

اوربرابر فنڈز مہیاء کیئے جائیں اسکولز کی تعمیر و ترقی کے لئے کردار ادا کریں تاکہ صوبے سے جہالت کے آسیب کو چھٹنے کا موقع ملے اور ہر سمت خواندگی میں اضافہ نئی نسل زیورے تعلیم سے آراستہ ہوں۔