اہل علم و ادراک چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو اس بات پر متفق ہیں کہ ملکی نیتاؤں کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، جو بھاشن یہ جلسے جلوسوں میں دیتے ہیں سب کزب عظیم ہیں، یہ اپنے مفاد کی خاطر خوب صورت جالیں بننے کے ماہر ہیں۔ ملکی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کبھی بھی ایسا موڑ نہیں آیا جہاں حکمران طبقہ نے عوامی مفادات کی خاطر جلسے جلوس کیے ہوں۔
حکمرانوں نے جب بھی ہنگامے برپا کیے تو عوام کو نہیں ان کے اپنے مفادات کو خطرہ لاحق ہوچکا تھا یہاں جب بھی عوامی مفادات کی خاطر بظاہر حکمرانوں نے جو اتحاد بنائے اگر ان کو گہرائی اور گیرائی میں جانچا جائے تو اتحاد صرف حکمران طبقہ کو فائدہ پہنچاتا تھاناکہ ملک کے عوام کو۔ حالیہ اپوزیشن کے سربراہان بھی کئی مرتبہ اقتدار کی رعنائیوں میں غوطہ زن ہوچکے ہیں، مسلم لیگ ن ہو یا پی پی پی دونوں جب اقتدار کی رنگینیوں میں اترتے ہیں تو انہیں عوام یاد نہیں رہتا لیکن جب اقتدار کا سرکش گھوڑا بدک کر انہیں دور پھینکتا ہے تو انہیں عوام کی یاد شدت سے آتی ہے۔
پھر یہ سیاسی اتحاد بناتے ہیںاور جب یہ دوبارہ گلستان شہنشاہی میں اترتے ہیں تو پھر عوام کو یکسر بھول جاتے ہیں ،نہ انہیں اپنا کوئی عہد و پیمان ازبر ہوتا ہے نہ عوام، پھر ان کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ اپنی بیرونی جائیدادوں میں اضافہ کریں یا مشرق وسطیٰ کے کسی ایسے ملک میں کارخانے لگائیں جن کا کسی کو علم نہ ہو، حکمران طبقہ کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ملکی عوام کو علم و دانش سے دور رکھا جائے تاکہ وہ ان کی لوٹ مار سے بے خبر رہیں، یہ ہمیشہ اقتدار چھن جانے کے بعد اکھٹت ہوکر اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں اور اس کو عوامی بھلائی کی جنگ کہتے ہیں اور یہی اپوزیشن جب کچھ لو کچھ دے کے بعد اقتدار میں آتی ہے تو پھر اپنی پرانی یکجہتی کو طاق نسیاں میں رکھ کر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کا اندراج شروع کرتے ہیں۔
پی پی ہو یا ن لیگ دونوں کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں، سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں وڈیروں کے بھینسوں کے باڑے ہیں اور پنجاب کے سرکاری اسکولوں کی عمارتیں چوہدریوں کے جانوروں کت اصطبل ہیں۔مملکت میں غربت کو ناپنے کا کوئی پیمانہ کسی بھی حکمران کے پاس نہیں، یہاں پارٹیاں بدلنا ،بدل کر پھر آنکھوں کا تارا بننا رواج بن چکا ہے، یہاں کامیاب لیڈر بننا اس امرسے مشروط ہے کہ ہر الیکشن میں پارٹی بدلو، مملکت کے ممبران پارلیمنٹ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں، انہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں یہ شکل دکھانے عوام کے پاس اس وقت آتے ہیں جب نئے الیکشن سر پر ہوں، یہ پھر عوام کو خوش نما نعروں کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹروں کی مٹھی گرم کر کے مزید پانچ برس کے لیے تاج شاہی کا بندوبست کرکے منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔