کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں آئندہ مالی سال 2021- 22 میں محکمہ پی ایچ ای اور محکمہ آبپاشی کی مجوزہ ترقیاتی اسکیمات اور انکے کانسیپٹ پیپرز کی تیاری سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات حافظ عبدالباسط، سیکرٹری خزانہ پسند خان بلیدی،سیکریٹری پی ایچ ای صالح محمد ناصر، سیکریٹری آبپاشی اکبر علی بلوچ اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کو محکمہ پی ایچ اے کی جانب سے آئندہ مالی سال 2021- 22 کی مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کے کانسیپٹ پیپرز کی تیاری۔
مجوزہ منصوبوں کی فزیبلٹی سٹڈی، بڑے اور چھوٹے نوعیت کے ترقیاتی اسکیمات جبکہ محکمہ آبپاشی کی جانب سے آئندہ مالی سال 2021- 22 میں تجویز کردہ آبپاشی کے بڑے منصوبوں اور صوبہ بھر میں ڈیموں کی تعمیر کے مجوزہ نئے ترقیاتی منصوبوں اور ان کے کانسیپٹ پیپرز اور پی سی 2 کی تیاری سے متعلق بریفنگ دی گئی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا کہ تمام محکمے بڑے نوعیت کے ترجیحی ترقیاتی منصوبوں کو سر فہرست رکھیں ۔
وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ ڈیمز کی تعمیر ان علاقوں میں کی جا? جہاں ان کی افادیت اور اہمیت زیادہ ہو اور ڈیموں کی تعمیر میں ماحول اور موسم کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری چیزوں کا بھی خیال رکھا جائے انہوں نے کہا کہ محکمانہ اور انفرادی نوعیت کے ترقیاتی سکیموں کو الگ الگ زیر غور لایا جائے اور بلوچستان کے بیسن کی سٹڈی سے متعلق بھی اسکیم تجویز کی جائے۔وزیراعلی نے ہدایت کی کہ انفرادی اسکیمات کی بجائے ڈیموں سے متعلق موجودہ امبریلا۔
اسکیمات کو ضروریات کے مطابق وسعت دی جائے وزیراعلی چیف سیکرٹری بلوچستان کی سربراہی میں ڈیموں کی کمانڈ اینڈ کیچمنٹ ایریا کو مد نظر رکھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اسکیمات تجویز کرنے کی ہدایت کی۔وزیر اعلی نے دریائے ناڑی کی طرز پر صوبے کے دیگر دریاؤں پر بند باندھنے کے منصوبوں کو شامل کرنے کی بھی ہدایت کی ۔
دریں اثناءوزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت اجلاس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بورڈ اور پی پی پی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کا جائزہ لیتے ہوئے مذکورہ ایکٹ میں مجوزہ ترامیم، پی پی پی اتھارٹی، سابقہ پی پی پی ایکٹ کی نئے مجوزہ ایکٹ میں تبدیلی، نئے فریم ورک کی منظوری اور مجوزہ پی پی پی ایکٹ کو بل کی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات،حافظ عبدالباسط،سیکریٹری خزانہ پسند خان بلیدی اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔اجلاس کو متعلقہ حکام کی جانب سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ مجوزہ ترامیم کے تحت صوبے میں تمام شعبہ جات میں پی پی پی ایکٹ لاگو ہو سکے گا۔جس کے تحت100 ملین روپے سے زائد کے منصوبے پی پی پی ایکٹ کے تحت پراسیس ہو نگے۔
جبکہ 100 سے 500 ملین روپے کے منصوبے منظوری کیلئے کابینہ میں پیش کیے جائیں گے اور حکومت بلوچستان کے معدنی تلاش اور ترقی کے منصوبے نئے مجوزہ ایکٹ سے مستثنیٰ ہوں گے۔نئے مجوزہ ایکٹ میں پروجیکٹ ایویلویشن،پی پی پی پروکیورمنٹ،پراجیکٹ امپلیمنٹیشن اینڈ آپریشن،رسک مینجمنٹ یونٹ کا خاتمہ،پی پی پی اتھارٹی،بڑے منصوبوں کے لیے کابینہ کی منظوری اور پی پی پی بورڈ کی سر نو تشکیل ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ مجوزہ نیا ایکٹ چاروں صوبوں اور وفاق میں لاگو پی پی پی ایکٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے اور موجودہ ایکٹ کے اسٹرکچر کو تبدیل کیا گیا ہے جس میں پی پی پی اتھارٹی اور ایگزیکٹو کمیٹی کا قیام بھی شامل ہے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا کہ ہر ایکٹ سے قبل پالیسی لانے کی ضرورت ہے جس میں خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئے تو انہیں مدنظر رکھتے ہوئے ایکٹ تشکیل دیئے جائیں۔
وزیراعلی نے ہدایت کی کہ حکومتی عہدیدار صرف پی پی پی بورڈ کا حصہ ہوں اور دیگر تمام ٹیم اور سی ای او نجی شعبہ سے ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو کمیٹی کی ایک مانیٹرنگ ٹیم بھی ہو تاکہ امور بطریق احسن رواں رکھے جاسکے۔