کوئٹہ: چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران خان ملاخیل پر مشتمل بنچ کے رو برو بلوچستان کے جنگلات و جنگلی حیات کو لاحق خطرات کے حوالے سے دائر پٹیشن کی سماعت ہوئی۔معزز بنچ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور چیف کنزرویٹر فاریسٹ کے بیانات سننے کے بعد ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جنگلاتی زمین کی کسی بھی شخص کومنتقلی اور اس پر قبضہ جمانا غیر قانونی عمل ہے۔
اور کسی بھی سرکاری اہلکار کا اس غیر قانونی عمل میں ملوث ہونا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا ہے جو کہ فاریسٹ اینڈ وائلڈ لائف ایکٹ کے دفعات کی خلاف ورزی بھی ہے اور بعض صورتوں میں قانونی چارہ جوئی کا متقاضی بھی ہے۔ اس طرح متعلقہ افسران جنگلاتی زمینوں کے بچاؤ و حفاظت اور اسکا ریکارڈ درست رکھنے سے لاپروائی کر کے اپنے اختیارات سے غفلت کے مر تکب ہوئے ہیں۔
قبل ازیں اے اے جی اور چیف کنزروٹر فورسٹ نے عدالت کو بتایا کہ 1890 کے ایک اعلامیہ میں صوبہ کے ایک وسیع رقبے کوجنگل قرار دیا گیا تھا لیکن فی الوقت اس جنگلاتی زمین کا اکثر حصہ یا تو قبضہ کر لیا گیا یا اسے غیر قانونی طور پر مختلف افراد کے نام منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے معزز عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں سروے آف پاکستان سے مذکورہ جنگلاتی زمین کی حد بندی کے لئے درخواست بھی کی گئی ۔
جسکے لئے 148ملین روپے کا محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان سے مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ جسکے لئے محکمہ خزانہ سے جواب کا انتظار ہے۔ چیف کنزرویٹر فاریسٹ نے مزید بتایا کہ مذکورہ جنگلاتی زمین کا ایک گہرا اور صوبے کا نایاب جنگل اب بھی شعباں کے نام سے موجود ہے جو کہ دواضلا ع کوئٹہ اور ہرنائی میں واقع ہے لیکن یہ جنگل بھی کچھ پرائیوٹ افراد کو غیر قانونی طور پر منتقل کر دیا گیا۔
ہیجو اسے مزید لین دین کے لئے استعمال کر چکے ہیں انہوں نے عدالت عالیہ کو مزید بتایا کہ ضلع زیارت میں بھی اسی طرح کی جنگلاتی زمین کا بیشتر حصہ بعض افراد اور محکمہ جات کو غیر قانونی طور پر الاٹ کیا گیا ہے۔ جبکہ ایسی زمین کسی بھی محکمہ اور فزد کو الاٹ نہیں کیجا سکتی۔ لہذا اگر اس ضمن میں افسران بندوبست اور ریو ینو اتھارٹیز کو ریکارڈ اعلامیہ کے مطابق درست کرنے کی ہدایات دی جائے۔
تو اسطرح کوئٹہ اور ہر نائی کے واحد جنگل کو بچانے میں مدد ملے گی۔ معزز عدالت نے سیکرٹری فاریسٹ و وائلڈ لائف حکومت بلوچستان، چیف کنزرویٹر فاریسٹ (شمالی،جنوبی) کو احکامات دیتے ہوئے کہا کہ وہ صوبے بھر کی جنگلاتی زمین کے حوالے سے ریکارڈ کی درستگی کے لئے فوری طور پر سینئر ممبر بورڈ آف ریوینو سے مٹینگ کریں ۔
بعد ازاں ریکارڈ کی درستگی کے بعد جس زمین کی اس حوالے سے حد بندی ہوجائے اسے جنگلات اور جنگلی حیات کے علاوہ کسی بھی دوسرے مقصد کے لئے نہ استعمال کیا جائے سیکرٹری فاریسٹ اور محکمہ وائلدلائف حکومت بلوچستان کو بھی غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ جنگلاتی زمین کی واپسی کے لئے اقدامات اٹھانے چاہئے۔ کیونکہ سی سی ایف نے جو بیان دیا ہے وہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
گلوبل وارمنگ و دیگر ماحولیاتی مسائل کے پیش نظر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ک وہ جنگلاتی زمینوں، چراہ گاہوں اور چھاڑی دار زمینوں کی حفاظت اور بحالی کے لئے اقدامات کریں کیونکہ فطرت کو محفوظ رکھ کر ہی ہم انسانیت کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ لہذا تمام متعلقہ کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں متعلقہ پولیس اور ایسے افسران جنکی اس حوالے سے ضرورت پڑتی ہے۔
انھیں محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کو تعاون فراہم کرنا چاہئے۔ ڈی جی مائنز و منرل نے فاریسٹ لینڈ میں الاٹ کی گئی زمینوں کے متو قع لائسنس اور مائننگ لیز کی فہرست بھی عدالت کو فراہم کی ڈی جی مائنز نے عدالت کو یقین دلایا۔ کہ وہ ان لیزز اور لائسنسوں کے خلاف قانون کے مطابق ایکشن لینگے۔ اس موقع پر سی سی وائلڈ لائف نے عدالت کو بتایا کہ مارچ اور اپریل کے مہینوں میں مہمان پرندے اپنے آبائی علاقوں کے لئے رخت سفر باندھتے ہیں۔
لیکن متعلقہ علاقوں کے بعض لوگ ان معدوم ہونے والے جنگلی حیات کو ظالمانہ انداز میں نشانہ بناتے ہیں جبکہ محکمہ جنگلی حیات کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔ لہذا انہیں متعلقہ علاقوں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت درکار ہے جسپر معزز عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ہی اس حوالے سے تمام ڈپٹی کمشنر اور متعلقہ ڈی آئی جیز کو معاونت کے لئے احکامات دے چکی ہے۔
لہذا تمام متعلقہ ڈیسیز اور پولیس حکام کو اس ہمہ وقت جاری عمل کیلئے محکمہ وائلڈ لائف و فاریسٹ کی باقاعدہ بنیادوں پر معاونت کرنی چاہئے۔ عدالت نے سی سی وائلڈ لائف کو بھی حکم دیا کہ وہ مہمان پرندوں سے جڑے علاقوں کا دورہ کریں شکاریوں اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں۔ اس موقع پر سی سی وائلڈ لائف نیمعزز بنچ کو بتایا کہ ان مہمان پرندوں کا شکار اکثر دوسرے صوبے کے لوگ خاص کر کے پی کے سے آ ئے شکاری کرتے ہیں۔
اور انہیں دوسرے صوبوں کو اسمگل بھی کرتے ہیں۔ تجویز ہے کہ اگر داخلی راستوں پر قائم ایف سی چیک پوسٹوں پر ایسے لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے تو ہم ان مہمان پرندوں کے ساتھ دوسرے نایاب جنگلی حیات کو بھی بچا سکتے ہیں۔ معزز عدالت نے متعلقہ کمانڈنٹس کو اس حوالے سے ایف سی اہلکاروں کو ہدایات جاری کرنے کا حکم دیا۔
معزز عدالت کو ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے مزید بتایا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں 5جنوری 2021 کو ایک اجلاس منعقد کیا جا چکا ہے جسمیں کئی ایک فیصلے کئے گئے ہیں جنہیں حتی الامکان نافذ کیا جائے گا۔
معززعدالت نے انہیں اگلی سماعت پر پیش رفت رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا اور حکم نامے کی کاپی آئی جی ایف سی (جنوبی، شمالی) سیکرٹری فاریسٹ اور وائلڈ لائف سیکرٹری و ڈی جی مائنز و منرلز، ڈی ماحولیاتی تحفظ، کمشنر کوئٹہ اور کنزرویٹر فوریسٹ (شمالی، جنوبی) اور کنزرویٹر وائلڈ لائف کو بھجوانے کے احکامات دئے۔