|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی اجلاس کور م پورا نہ ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی، اپوزیشن ارکان کا صوبے میں زمینداروں ، سرکاری ملازمین سمیت دیگر مسائل پر احتجاج ،حکومت کی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی۔بدھ کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے پینل آف چیئر مین کے رکن قادر علی نائل کی زیر صدرت شروع ہوا ۔

ا جلاس کے آغاز پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصراللہ زیرئے نے پوائنٹ آف آرڈر پر بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کا نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئے روز حادثات پیش آرہے ہیں گزشتہ روز تفتان کوئٹہ شاہراہ پر جو حادثہ ہوا اس میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی کیا وجوہات ہیں اور حکومت نے اس حوالے سے اب تک کیا کیا ہے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر زمینداروں ، سرکاری ملازمین اور سریاب روڈ توسیعی منصوبے کے متاثرہ افراد کے احتجاج کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت مسائل کے حل میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے زراعت سے بلوچستان کے لوگوں کی روزی روٹی وابستہ ہے مگر بجلی نہ ملنے سے زمیندار شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔

گزشتہ اجلاس میں چیئر مین نے جو رولنگ دی تھی اس کے مطابق بعض علاقوں میں بجلی بحال ہوئی ہے مگر آج بھی صوبے کے متعدد اضلاع میں بجلی نہیں ہے حکومت جواب دے کہ کیسکو کو ادائیگی کیوں نہیں کی جارہی مجبور ہو کر اب زمینداروںنے صوبہ بھر میں ہڑتال کا فیصلہ کیا ہے ۔ جے یوآئی کے سید عزیز اللہ آغا نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پورا صوبہ تباہی کا منظر پیش کررہا ہے۔

پورے صوبے میں آگ لگی ہوئی ہے اور اس گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگی ہے ہر طبقہ احتجاج پر ہے مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ انہوںنے کہا کہ جونیئر ٹیچرز پریس کلب کے باہر احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں حکومت نے تاحال ان کا مسئلہ حل نہیں کیا زمیندار مجبور ہو کر ہڑتال کررہے ہیں گرینڈ الائنس کے پلیٹ فارم سے تمام ملازم تنظیمیں احتجاج پر بیٹھی ہوئی ہیں حکومت غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری ترک کرے ۔

انہوںنے کہا کہ واپڈا نے ہمیشہ زمینداروں کا استحصال اور معاشی قتل عام کیا ہے حکومت ان کا مسئلہ حل کرائے ورنہ ہم اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج پر مجبور ہوںگے انہوںنے بار بار لفظ سلیکٹڈ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو برا لگتا ہوگا مگر ہم اس حکومت کو سلیکٹڈ سمجھتے ہیں یہ صوبہ اور اس صوبے کے عوام مزید آپ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے آپ سے حالات اس لئے کنٹرول نہیں ہورہے۔

کیونکہ آپ کی نیت میں فتور ہے لہٰذا آپ راستہ چھوڑیئیاور مستعفی ہوجائیں انہوںنے کہا کہ صوبے میں کرپشن کے لئے تو اربوں روپے ہیں لیکن ملازمین کی تنخواہوں کے لئے پیسے نہیں یہ عجیب بات ہے ۔ وزیر داخلہ و قبائلی امور میر ضیاء اللہ لانگو نے ایوان کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ ملازمین کے مسائل حل کئے جارہے ہیں ان کے مطالبات کا جائزہ لینے اور مسائل کے حل کے لئے حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

جس کی سربراہی وزیر خزانہ کررہے ہیں بیٹھ کر تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے گا اور ملازمین کا مسئلہ حل کیا جائے گا۔ اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے بھی زمینداروں ، سرکاری ملازمین اور سریاب روڈ توسیعی منصوبے کے متاثرین کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارے صوبے کا پورا نظام مفلوج دکھائی دیتا ہے کہتے ہیں کہ جب روم جل رہا تھا ۔

تو اس وقت کا بادشاہ نیرو پہاڑی پر بیٹھ کر بانسری بجاتا رہا تین دن روم جلتا رہا بادشاہ کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں تھی انہوںنے کہا کہ روم تین دن تک جلتا رہا اور بلوچستان تین سالوںسے جل رہا ہے اس وقت بلوچستان کے طول وعرض سے ہزاروں ملازمین کوئٹہ آکر سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جن میں عمر رسید افراد اور خواتین بھی شامل ہیں یہ لوگ کسی میلے میں نہیں آئے نہ ہی یہ میلہ اپوزیشن نے لگایا ہے۔

یہ لوگ اپنی تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافے کے لئے آئے ہیں 72فیصد شدید غربت کے شکار صوبے میں جہاں ملازمتیں ناپید ہیں بارڈر سیل کئے جارہے ہیں تیل کے کاروبار پر پابندی لگائی جارہی ہے ان ملازمین کی تنخواہوںمیں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہونا چاہئے اس موقع پر انہوںنے ایوان میں اشیائے خوردونوش کی دو سال کی قیمتو ں کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے چھوٹے گوشت کی قیمت میں 32فیصد ، بڑے گوشت کی قیمت میں20فیصد ، دال 30فیصد ، چینی کی قیمتوں میں36اور مصالحہ جات کی قیمتوں میں سو فیصد سے بھی زائد کا اضافہ ہوا ہے ادویات کی قیمتیں بڑھی ہیں۔

اگر حکومت بروقت بیٹھ کر یہ طے کرتی کہ مہنگائی کے پیش نظر مختلف مدات سے کٹوتی کرکے ملازمین کی تنخواہیں بڑھادیتے ہیں تو شاید آج یہ لوگ اپنے گھروں پر بیٹھے ہوتے اسی طرح زمینداروںکے مسائل کا بھی بروقت ادراک نہیں کیا گیا بہت پہلے خشک سالی سے متعلق رپورٹ آگئی تھی حکومت اگر سنجیدہ ہوتی تو بیٹھ کر ترجیحات کا تعین کرتی زرعی پیداوار کی بہتری کے لئے کام کرتی اور کیسکو کے ساتھ بیٹھ کر یہ طے کرتی کہ حالات جیسے بھی ۔

ہوں آپ نے بارہ گھنٹے زمینداروں کو بجلی فراہم کرنی ہے تاکہ صوبے میں خوراک کا بحران پیدا نہ ہو انہوںنے کہا کہ سریاب روڈ توسیعی منصوبے کی وجہ سے لوگ اپنی جدی پشتی جائیدادوںسے محروم ہورہے ہیں یا تو حکومت دکان کے بدلے دکان دیتی یا پھر مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضے مگر افسو س کہ یہاں بھی حکومت نے غیر سنجیدگی دکھائی آپ کی سڑک لوگوں کا پیٹ کاٹ کر گزر رہی ہے۔

حکمران لوگوں سے روزی روٹی چھین رہے ہیں ۔صوبائی وزیر مال میر سلیم کھوسہ نے اپوزیشن اراکین کے موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ معاوضوں میں اضافے کے حوالے سے باقاعدہ ایک طریقہ کار موجود ہے ہمارے لوگ ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں اور ویلوایشن کم بتاتے ہیں جس کے بعد جب اس طرح کے معاملات آتے ہیں تو پھر پچھتانا پڑتا ہے۔

انتظامیہ نے متعین طریقہ کار کے مطابق تین سال کا ریکارڈ نکالا ٹیکسز کا جائزہ لیا اور اس کے بعد تین سال کے ریکارڈ کی روشنی میں پندرہ فیصد اضافے کے ساتھ ریٹ متعین کیا یہ سب ایک سال سے چل رہا ہے تب تو کسی نے کوئی بات نہیں کی اب جب یہ معاملہ عدالت میں گیا ہے تو ہم اس پر کیا موقف دے سکتے ہیں عدالت سے جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اس کی پابندی اور پاسداری کریں گے ۔

اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے اپنے توجہ دلائو نوٹس میں وزیر برائے قانون کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل(3)29کے تحت حکمت عملی کے اصولوں کی بابت صوبائی حکومت ہر سال بذریعہ گورنر ایک رپورٹ جمع کراتی ہے لیکن صوبائی حکومت نے گزشتہ کئی سال سے یہ رپورٹ جمع نہیں کرائی اس حوالے سے میں نے 17ستمبر2020ء کے اجلاس میں تحریک التواء بھی پیش کی تھی ۔

جس پر سپیکر نے رولنگ بھی دی مگر اس کے باوجود مذکورہ رپورٹ جمع نہیں اس کی کیا وجوہات ہیں انہوںنے کہا کہ اس وقت ہمارے صوبے میں جو بے چینی ہے اگر حکومت آئین پر موثر عملدرآمد کو یقینی بنائے تو یہ بے چینی ختم ہوسکتی ہے آئین میں متعدد آرٹیکلز حکمت عملی کے اصولوں سے متعلق ہیں افسوس کہ حکومت اپنی آئینی ذمہ داری نہیں نبھارہی جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔

اس موقع پر انہوں نے آئین کے آرٹیکل 34،35،36،37ایوان میں پڑھ کر سنائے چیئر مین قادر علی نائل اور اپوزیشن لیڈر کے مابین کافی دیر تک مکالمہ بھی ہوتا رہا اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھاکہ اگر متعلقہ وزیر یا پارلیمانی سیکرٹری موجود نہیں تو جو دیگر سینئر وزراء بیٹھے ہیں وہ اس کا جواب دیں بعدازایں چیئر مین نے توجہ دلائو نوٹس موخر کرتے ہوئے رولنگ دی کہ سیکرٹری اسمبلی اس بابت چیف سیکرٹری اور سیکرٹری قانون کو مراسلہ ارسال کریں ۔

اور اگلے اجلاس تک مذکورہ رپورٹ طلب کریں چیئر مین قادر علی نائل نے ملک سکندرخان ایڈووکیٹ اور نصراللہ زیرئے کے توجہ دلائو نوٹسز کے تناظر میں رولنگ دی کہ آئندہ جس بھی محکمے سے متعلق وقفہ سوالات ، توجہ دلائو نوٹسز ہوں متعلقہ وزیر خود یا متعلقہ پارلیمانی سیکرٹری ایوان میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں ۔اجلاس میں جے یوآئی کے میر یونس عزیز زہری نے پوائنٹ آف آرڈر پر چیئر مین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 24مارچ کو جھالاوان اور لورالائی میڈیکل کالجز سے متعلق جو رولنگ دی گئی تھی اس پر پی اینڈ ڈی نے تاحال رپورٹ جمع نہیں کرائی جبکہ جو ادھوری رپورٹ محکمہ صحت کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔

اس میں وزیراعلیٰ کے ان احکامات کا تذکرہ موجود ہے کہ جھالاوان میڈیکل کالج موجودہ جگہ پر نہیں بننا چاہئے انہوںنے کہا کہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے یہ کالج بند ہوجائیں گے ۔ نصراللہ زیرئے نے بھی کہا کہ حکومت کی عدم توجہی سے میڈیکل کالجز بند ہوجائیں گے جس پر وزیرخزانہ میرظہور بلیدی نے ایوان کو بتایا کالجز کے حوالے سے حکومت کام کررہی ہے۔

ٹیچنگ ہسپتال ، فیکلٹی،مشینری سمیت پاکستان میڈیکل کونسل کے دیگر کوائف ہیں جنہیں پورا کیا جارہا ہے یہ کوائف پورے ہوں گے اس معاملے پر کابینہ کے اجلاس میں بھی تفصیلی بات ہوئی ہے پی ایم سی کے اگلے وزٹ کے بعد جھالاوان ، تربت اور لورالائی کے میڈیکل کالجز کاپاکستان میڈیکل کونسل سے الحاق ہوجائے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اپوزیشن اراکین نے ملازمین کے احتجاج کے حوالے سے لمبی تقاریرکیں۔

گزشتہ اجلاس میں اپوزیشن ہی کی جانب سے توجہ دلائو نوٹس آیا تھا کہ بلوچستان کا مالی خسارہ ایک کھرب تک جا پہنچا ہے جس کا میں نے ایوان میں تفصیلی جواب بھی دیا کوئی بھی حکومت نہیں چاہتی کہ اس کے ملازمین ہڑتال پر جائیں او راحتجاج کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت مہنگائی کافی زیادہ ہوگئی ہے اور گریڈ ایک سے گریڈ پندرہ تک کے ملازمین کی مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں ۔

مگر یہ اس وقت ہمارا ہی نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے کیونکہ کورونا وائرس کے باعث جووبائی حالات بنے لاک ڈائون اور معاشی بندشوں کی وجہ سے ٹیکسوںکا نظام بھی متاثر ہوا ہم بھی اس سے متاثر ہوئے اور بلوچستان کو قابل تقسیم محاصل سے جو281ارب ملنے تھے وہ کم ہو کر251ارب ہوگئے بلوچستان حکومت کے پاس اس وقت 2لاکھ20ہزار831ملازمین ہیں جن کی تنخواہوں اور مجموعی بجٹ کے غیر ترقیاتی بجٹ پر وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ ہورہا ہے۔

ملازمین کے مسائل حکومت کی نظر میں ہیں ابھی میر ظہور بلیدی ایوان میں اظہار خیال کررہے تھے کہ کورم کی نشاندہی ہوگئی جس پر پہلے ایوان میں کورم کی گھنٹیاں بجائی گئیں اور بعدازاں کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا ۔قبل ازیں بعض محکموں سے متعلق وقفہ سوالات موخر اور بعض کو نمٹادیا گیا تاہم کورم کے باعث سید احسان شاہ کی تربت شہر سے متعلق قرار داد اور محکمہ خزانہ اور بلوچستان فوڈ اتھارٹی کی سالانہ رپورٹ ایوان میں پیش نہ ہوسکی ۔