|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2021

سابق صدر آصف علی زرداری ان دنوں ملکی سیاست میں زیربحث موضوع بن چکے ہیں جس کی وجہ یوسف رضاگیلانی کی سینیٹ کی نشست میں کامیابی اورسینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننا ہے اور یہی باتیں کی جارہی ہیں کہ آصف علی زرداری مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بہرحال پیپلزپارٹی کی ماضی کی سیاسی پالیسیوں کا جائزہ لیاجائے تو اس نتیجہ پرپہنچا جاسکتا ہے کہ جب شہید بینظیر بھٹوزندہ تھیں تو ان کی لسٹ میں پنجاب میںمقتدر حلقوں کے قریبی سیاسی شخصیات سے ان کے تعلقات کبھی بہتر نہیں رہے ۔

جس کی واضح مثال چوہدری برادران ہیں ۔بینظیر کی زندگی میں وہ کبھی بھی پیپلزپارٹی کے اتحادی نہیں رہے مگربینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء میں آصف علی زرداری کی وطن واپسی اورپیپلزپارٹی کی عام انتخابات میں کامیابی کے بعد چوہدری پرویز الہٰی ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے اور یہ بات مشہور ہوئی کہ آصف علی زرداری مصلحت پسندی کی سیاست کرتے ہیں اور سخت گیر مؤفف سے گریز کرتے ہیں۔ حالیہ دونوں اہداف حاصل کرنے کے بعد یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ آصف علی زرداری کی پالیسی کے مطابق پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے ساتھ مستقبل میں نہیں چلنا چاہتی۔

بلکہ سیاسی صف بندی کے ذریعے پنجاب میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے گی اور اس کیلئے وہ اپنے پرانے دوست چوہدری برادران کے ساتھ قربت بڑھائے گی تاکہ آنے والے عام انتخابات میں وہ پنجاب میں چوہدری برادران اور ن لیگ کے ناراض ارکان کو اپنے ساتھ ملاکر مرکز میں مخلوط حکومت بناسکیں جس کیلئے ابھی سے آصف علی زرداری مسلسل پی ڈی ایم کے فیصلوں کی مخالف سمت جارہے ہیں اور پی ڈی ایم کے ساتھ صرف پی ٹی آئی کی حکومت کو دباؤ میں رکھنے کیلئے ساتھ چل رہے ہیں مگر سخت گیر بیانیہ کی کسی صورت حمایت نہیں کرینگے۔

جس طرح کا سیاسی ماحول بنتا جارہا ہے اس سے ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ ن لیگ اپنے سخت گیر سیاسی مؤقف کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں زیادہ نشستیں نہیں لے سکے گی جبکہ پی ٹی آئی کو آنے والے انتخابات میں بھی کسی حد تک جگہ دی جائے گی جو مرکز میں اپوزیشن کی بڑی جماعت کے طور پر کام کرسکے اور عین ممکن ہے کہ آخری دو سالوں کے دوران ملک میں معاشی صورتحال میں بہتری آئے تو پی ٹی آئی ایک بار پھر حکومت میں آسکتی ہے۔ اگر وہ بہترنتائج نہ دے سکی تو اسے بیک فٹ پر رکھاجائے گا اور ایک نئی اتحاد پیپلزپارٹی،ق لیگ اور ن لیگ کے ناراض ارکان پر مشتمل مرکزمیں حکومت بنائے گی۔

بہرحال یہ سیاسی تناظر میں تجزیہ ہے اور اس میں شاید کچھ اور تبدیلی ہونے کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا مگر ن لیگ جس سیاسی پالیسی پر گامزن ہے اس سے وہ مستقبل میں سیاسی نقصان اٹھاسکتا ہے اور اس کا فائدہ پیپلزپارٹی ہی اٹھائے گی البتہ شریف خاندان اندرون خانہ انتشار کا شکار نہیں ہوگی مگر ن لیگ کے اندر موجود بعض ارکان ان سے الگ ہوجائینگے اور ق لیگ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ جائینگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آصف علی زرداری ماضی کی سیاسی پالیسیوں کے ذریعے کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کریں گے یا پھر سندھ تک ہی پیپلز پارٹی محدود ہوکر رہ جائے گی، اس تمام تر سیاسی منظر نامہ کی تبدیلی کا دارومدار پی ٹی آئی کی کارکردگی پر منحصر ہے۔