|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2021

کوئٹہ: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عثمان خان کاکڑ کی قیادت میں پارٹی کے وفد نے کوئٹہ میں جاری گرینڈ الائنس ملازمین کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کی ۔ وفد میں پارٹی کے مرکزی وصوبائی سیکرٹری عبدالرحیم زیاتوال، صوبائی نائب صدر عبدالقہار خان ودان، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری ورکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے اور پارٹی کے دیگررہنماء شریک تھے۔

اس موقع پر عثمان خان کاکڑ نے گرینڈ الائنس ملازمین کے احتجاجی دھرنے اور رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے نے گرینڈ الائنس ملازمین کے پریس کلب کوئٹہ سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج صوبے کے تمام گرینڈ الائنس ملازمین کا دھرنا ایک ایسے صوبے میں جس کی زمین قدرت کے معدنی خزانوں سے مالا مال ہے اور تقریباً00 8کلو میٹر سائل سمندر کے مالک ہوں۔

اور ا ن کے فرزندان اور بچیاں آج روڈ پر تنخواہوں کے اضافے کیلئے سراپا احتجاج ہوہم بحیثیت پارٹی پشتونخوامیپ آپ کے ان برحق مطالبات میں آپ کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پشتون بلوچ دو قومی صوبہ بلوچستان میں ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق صوبے کی 70فیصدسے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار ررہے ہیں صوبے میں صنعت نام کی کوئی چیز نہیں سرکاری طور پر تعلیم ، صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

تجارت کے راستے میں مسلسل رکاوٹیںجس کے نتیجے میں تمام صوبہ نان شبینہ کا محتاج بن چکا ہے ، صوبے میں عوام کیلئے پانی ، بجلی ، گیس ناپید ہوتا جارہا ہے ، مہنگائی میں اضافہ 100فیصد تک تقریباہوچکا ہے اور ملازمین کو 25فیصد نہ دینا اور اسلام آباد میں وعدہ کیا گیا ، تین منی بجٹ کے باوجود ملازمین کے ساتھ صوبہ بلوچستان کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے وفاقی حکومت ،45وزارتوں ،ڈویژنوں ،مختلف اتھارٹیز میں تقریباً اس صوبے کے 15ہزار سے زیادہ ملازمتوں کا مقروض ہے جو کہ صوبے کو نہیں دیئے جارہے ہیں ، ہمارے صوبائی ٹیکسز خصوصاً گیس کی کی آمدنی کراچی میں جمع کیا جاتا ہے اور آگے سے کہا جارہا ہے کہ صوبے کی اپنی آمدنی نہیں ہے جب آمدنی اور پیداوار کے ذرائع قبضہ ہوجاتے ہیں۔

تو عوام سڑکوں پرسراپا احتجاج نہیںہونگے تو کہا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے میں سیویلین اتھارٹی ختم ہوچکی ہے ہر ضلع کو ایک میجرسے چلایا جارہا ہے جام اوراس کی حکومت غیر آئینی سلیکٹڈکا ٹولہ ہے صوبے کے اختیارات اور وسائل کا مرکز اور اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کے نتیجے میں آئے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت کوئٹہ شہر میں ترقیاتی کام کوئٹہ چھاونی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

پارٹی اپنے عوام پر واضح کرنا چاہتی ہے کہ اس ناقابل قبول صورتحال پر صوبے کی دیگر سیاسی جمہوری پارٹیاں یہی موقف اختیار کرے تاکہ مشکلات کا ازالہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے ترقیاتی دعوے پشین ، چمن ، خاران ، مکران ، آوران ، ژوب ، سبی ، زیارت ، ہرنائی ،لورالائی ، موسیٰ خیل، شیرانی، قلعہ سیف اللہ، خضدار ، تربت ، پنجگور ، نوشکی اور تمام صوبے میں دیکھ سکتے ہیں۔

ترقی صرف اور صرف فوج اور ایف سی کے قلعوں کی ہوئی ۔ اس وقت تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز اور دیگر انتظامیہ خانہ پوری کررہے ہیں اور اس طرح اب سیکرٹریز سیکرٹریٹ میں بے اختیار بیٹھے ہیں اور صوبے میں ہر کئی مائنز منرل، زمینوں اور تمام پیداواری ذرائع پر قبضہ بڑھتا جارہا ہے ۔ ایک جانب مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔

آٹا ، چینی ، گھی ، ادوئیات ودیگر اشیاء ضرورت کی قیمتوں میںتقریباً 100فیصد اضافہ کیا گیا اور مرکز کے اعلان کے بعد بھی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا اور پے در پے منی بجٹ لاناجبکہ سندھ حکومت مرکز کے اعلان کے ساتھ ہی صوبائی ملازمین کے تنخواہوں میں اضافہ کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی صوبے کے تقریباً 2لاکھ 60ہزار ملازمین کے ساتھ ہیں اور ان کے جائز مطالبات میں ان کا بھر پور ساتھ دیگی اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ مطالبات کو فوری تسلیم کیا جائے اور صوبے کے مرد وخواتین کو باعزت طور پر گھر بھیجا جائے۔