|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2021

کوئٹہ: وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا ہے کہ پاک ایران اور پاک افغان سرحدوں پر باڑ لگانے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، سرحدوں پر باڑلگانے بے روز گار ہونے والے افراد کو چار محکموں میں نوکریاں دیں گے۔

بلوچستان میں دہشتگردی ابھی ختم نہیں ہوئی باہر بیٹھے لوگوں سے مذاکرات ضرور ہونگے لیکن اس کے لئے انہیں دہشتگردی ترک کرنی ہوگی، امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، یہ با ت انہوں نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی علاقوں میں مشترکہ کوئیک ری ایکشن فورس کے قیام پر اتفاق کیا گیا ہے۔

مغربی سرحد سے دہشتگردی کے پے در پے واقعات کی وجہ سے عوام عدم تحفظ کا شکار تھی عوام کو تحفظ کا احساس دینے کے لئے سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا گیا جو کہ تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے، انہوں نے کہا کہ سرحد وں پر باڑ لگانے سے سرحدی علاقوں میں روزگار متاثر ہوا ہے تاہم حکومت کو اس بات کااحساس ہے اس مسئلے کے حل کے لئے کمیٹی قائم ہے جو اپنا کام کر رہی ہے۔

صوبے میں فری اکنامک زون بنائے جارہے ہیں جس سے قانونی تجارت کو فروٖغ ملے گا میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ جو لوگ سرحد پر باڑلگنے کی وجہ سے بے روزگار ہورہے ہیں انہیں پولیس، لیویز، ایف سی اور پی ڈی ایم اے میں نوکریاں دی جائیں گی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک وقت تھا جب ہر روز دہشتگردی کے واقعات ہوتے تھے جس پر سیکورٹی فورسز اور عوام نے ملکر قربانیاں دیں۔

اور صوبے میں امن قائم کیا اب صوبے میں دہشتگردی کے واقعات کمی آئی ہے البتہ دہشتگردی اب تک ختم نہیں ہوئی بہتری کی گنجائش موجود ہے جس پر کام کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی قائل ہے تاہم دہشتگردی کے ماحول میں ناراض بلوچوں سے امن مذاکرات نہیں کئے جاسکتے حکومت سب کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔

لیکن اس سے قبل دہشتگردی کو ترک کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا رقبہ وسیع و عریض ہے اگر گوادر کو جنوبی دارالحکومت بنایا بھی جاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا البتہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی اس پر مشاورت کی گئی ہے۔

اگر گوادر کو جنوبی دارالحکومت بنا بھی دیا جائے تو اس سے علاقے کے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور اگر وزیر اعلیٰ اور کابینہ ارکان گوادر میں ہونگے تو اس سے گوادر کے مسائل کو حل کرنے میں مزید معاونت ملے گی۔