حب: بلوچ عوامی موومنٹ کے مرکزی ڈپٹی آرگنازر ریس نواز علی برفت ایڈووکیٹ نے کہا کہ جنوبی بلوچستان کے نام پر بلوچستان کی تقسیم کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ و ترقی کو روک کر ذاتی کمیشن کے پراجیکٹس کو تقویت دے۔ ان خیالات کا وہ بلوچ عوامی موومنٹ لسبیلہ کی جانب سے پارٹی یوم تاسیس کے موقع پر کارکنان سے خطاب کے دوران کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص طبقہ سامراجی مفادات کی خاطر بلوچ قوم کے قومی جذبات سے کھیل کر بلوچ قوم کو للکار رہا ہے۔ جو بلوچ اور اہلیان بلوچستان کیلیے انتہائی تشویشناک ہے۔ بلوچ ساحل کو بغیر کسی استصواب راے کے کبھی سنگاپور کبھی سعودی عرب تو کبھی چین کے حوالے کیاجاتا ہے۔ ساحل سمندر سے متصل جزار کو وفاق کی تحویل میں لیا جاتا ہے۔
بلوچستان کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو نیشنل کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی بناکر ساحل بلوچ کو وفاق اپنی تحویل لیتا ہے۔ کبھی بلوچستان میں زیرتعلیم ہماری بہنوں کے ہاسٹل یا واش رومز میں خفیہ کیمرے لگاکر ہماری غیرت کو للکارا جاتا ہے تو کبھی برمش کی والدہ تو کبھی حیات بلوچ کو سرعام گولیاں مارکر شہید کیا جاتا ہے۔ کبھی لسبیلہ گوادر اور کوٹہ میں بی ایریا کا خاتمہ کرکے بلوچستان کی منفرد حیثیت کوسبوتاژ کیا جاتا ہے۔
تو کبھی گوادر کیگرد باڑ لگاکر گوادر کے باسیوں کو تنگ کرنے کے لیے نت نے حیلے بہانے کیے جاتے ہیں۔ اب جنوبی بلوچستان کا شوشہ چھوڑ کر بلوچستان کو تقسیم در تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جو قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہے۔ بلوچ عوامی موومنٹ بلوچستان کی تقسیم کو ہرگز برداشت نہیں کریگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سازشی ٹولے اور سامراج اور اس کی مختلف اشکال پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کوی مفتوحہ علاقہ نہیں ہے ۔
جس پر کسی فاتح راے بہادر، نواب بہادر، سردار بہادر، میر بہادر یا پھر جنرل بہادر کی منشا کے مطابق من چاہے فیصلے کیے جایں گے۔ بلوچ قوم تاریخ انسانی کی ایک ایسی قوم ہے جس نے کبھی ظلم و بربریت کے خلاف ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ہرمحاذ پر پیش پیش رہ اپنی عزت وتوقیر کو بلند رکھا۔ انہوں نے کہا کہ وسائل سے مالا مال صوبے کے نوجوان بیروزگار اور یہاں سے جعلی لوکل و ڈومیسال سرٹیفکٹس حاصل کرکے بلوچستان کوٹہ پر وفاقی محکموں میں تعینات ہیں۔
اور بلوچ نوجوان کے روزگار پر شب خون مار رہے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کے سرکاری ملازمین کی ترقی اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ روک کر جو سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا گیا ہے وہ تشویشناک عمل ہے جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ پاک ایران بارڈر پر تیل وڈیزل کی تجارت پر کبھی بارڈر پار پابندی لگاکر تو کبھی ہمارے حکمرانوں کی جانب سے پابندی عاد کرکے غریب محنت کش طبقہ کو نان شبینہ کا محتاج بنایا جاتا ہے۔
اور بارڈر پار تو معصوم بلوچ نوجوانوں کو نشانہ بناکر موت کی نیند سلادیا جاتا ہے۔ جس پر ہرگز خاموش ہوکر نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم BAM کا تیسرا یوم تاسیس محنت کش طبقہ کے نام کرتے ہوے یہ اعلان کرتے ہیں کہ BAM کی جانب سیحب کی صنعتوں سمیت ہرشعبہ زندگی میں کام کرنے والے محنت کشوں کو بین الاقوامی لیبر قوانین کے تحت مراعات دلانے کے لیے باقاعدہ احتجاجی تحریکیں مرتب کی جایں گی۔
اور صنعتوں سے ٹھیکہ داری نظام اور کنٹریکٹ ملازمتوں کے نظام کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات اٹھاے جایں گے۔ اس موقع پر مرکزی ممبران مرکزی آرگنازنگ کمیٹی نادر علی کھیتران، لالہ منیر ناصر، واجہ اکرام اللہ بلوچ ایڈووکیٹ، اسرار حکیم زہری، BAM بانی رکن پروفیسر غنی طارق بلوچ، بام یوتھ ونگ کے مرکزی آرگنازر آصف اقبال قمبرانی۔
ڈپٹی آرگنازر شیراز انور شیخ، کامریڈ فقیر محمد بلوچ، وڈیرہ علی حیدر عمرانی نے بھی خطاب کیا۔ بعد ازاں پارٹی کے تیسرے یوم تاسیس کا کیک کاٹا گیا۔ اور پارٹی کی یونٹ سازی و تنظیم سازی کے عمل کو تیز کرنے کا عزم کیا گیا۔