|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2021

کوئٹہ: چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ انصاف صرف عمارت تعمیر کرنے سے نہیں ملتا بلکہ انصاف اس عمارت میں بیٹھے ہوئے لوگ مہیا کرتے ہیں عمارت صرف انصاف فراہم کرنے کے لیے سہولت فراہم کرتی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سریاب روڈ پر نئے جوڈیشل کمپلیکس کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے لیے ججز اور وکلا کو مل کر کام کرنا ہوگا اگر ان سب کے باوجود انصاف فراہم نہیں کیا جاتا تو یہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہوگا۔تقریب میں فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس جناب محمد نور مسکانزئی بلوچستان ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان جسٹس نعیم اختر افغان ،جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس محمد اعجاز سواتی، جسٹس کامران ملاخیل، جسٹس ظہیر الدین کاکڑ ،جسٹس عبداللہ بلوچ، جسٹس نذیر احمد لانگو۔

جسٹس روزی خان بڑیچ، جسٹس عبدالحمید بلوچ، ممبر انسپکشن ٹیم آفتاب احمد لون، رجسٹرار ہائی کورٹ راشد محمود ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سریاب طارق انور کا سی، سیکریٹری ٹوچیف جسٹس ملک شعیب سلطان ،سیشن جج صاحبان جوڈیشل افسران کے علاوہ رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ اراکین صوبائی اسمبلی ملک نصیر احمد شاہوانی، احمد نوازبلوچ، نصراللہ زیرے، اور شکیلہ نوید دہوار کے علاوہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن اسفندیار کاکڑ۔

ڈپٹی کمشنر کوئٹہ مجیر ریٹائرڈ اورنگزیب بادینی،وکلا تنظیموں کے سربراہان مقامی وکلا، قبائلی عمائدین ودیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مختلف پلیٹ فارم سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جوڈیشری ہمارے ساتھ ہے یہ تاثر درست نہیں جو ڈیشری صرف اور صرف انصاف فراہم کرنے کے لیے ہیے ہم آئین اور قانون کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے ان شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے صوبے میں امن وامان کی فضا بحال کی اور جن کی بدولت وہ پر امن ماحول میں بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آج کی تقریب ان لوگوں کے لئے بھی ایک پیغام ہے ۔

جو مختلف ذرائع سے اس پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ محب وطن نہیں یہاں کے لوگ بھی ملک بھر کے دیگر لوگوں کی طرح محب وطن اور مخلص ہیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انصاف فراہم کرنا حکومتی اداروں کا کام ہے عدالت نا انصافی کے خلاف فیصلہ کرتی ہے جب لوگ حکومتی اداروں سے ناراض ہوتے ہیں اور انہیں انصاف نہیں ملتا تب وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔

تو کیا یہ ضروری ہے کہ عوام کو مجبور کیا جائے کہ وہ ہم سے ریلیف طلب کریں انہوں نے سریاب روڈ کے متاثرین کے حوالے سے انتظامی افسران سے کہا کہ وہ قانون کے مطابق ان کے ساتھ انصاف کرے انہوں نے کہا کہ حکومت کے معاملات طے کرنا ہمارا کام نہیں۔ جب کبھی آئین کی خلاف ورزی ہو تو پھر عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے حکومت کے معاملات اگر ہم نے طے کرنا ہے۔

تو پھر اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ کیا کرینگے جمہوریت نام ہی عوام کے لیے آواز اٹھانا اور مذاکرات سے مسائل حل کرنا کا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس کی یہ نئی عمارت اس بات کا استعارہ ہوگی کہ یہاں قانون کی عمل داری ہے انہوں نے کہا کہ آج کی تقریب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہماری ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے افسران اور سٹاف کا ایکٹ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اب پہلی مرتبہ ہم نے ایک ایکٹ بنا لیا ہے۔

اس ایکٹ کے مطابق تمام تعیناتی اور ٹرانسفرز عمل میں لائی جائے گی اس موقع پر انہوں نے سریاب ڈویژن کو عدالتی اصطلاحات میں سیشن ڈویژن بنانے کا اعلان بھی کیا جو کہ ایک خودمختار سیشن ڈویژن کے طور پر کام کرے گا جس سے سریاب کے علاقے کو ایک اہم حیثیت حاصل ہوگی لہذا ملحقہ علاقوں کو بھی سریاب کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ یہاں لوگوں کو انصاف کے حوالے سے سہولت ان کی دہلیز پر میسر آئے۔

انہوں نے وکلاء تنظیموں اور وکلا برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء برادری پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے وکلاء جوڈیشری سے کرپشن ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں وکلاء بغیر ثبوت کے ججز پر محض الزام نہ لگائیں اگر کسی کے پاس بھی کسی جج کے خلاف ثبوت ہے تو وہ لے کر آئے ہم اس کے خلاف ایکشن لیں گے ہم نے پہلے بھی اس حوالے سے اقدامات کیے ہیں اور ججز کو کرپشن کی بنیاد پر نکالا ہے۔

لیکن افسوس اس امر پر ہے کہ ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی بار کونسل نے ایسے کتنے وکلاء کے خلاف ایکشن لیا ہے جس طرح سارے ججز پارسا نہیں اسی طرح سارے وکلاء بھی پارسا نہیں میں وکلاء کے خلاف ڈسپلنری ٹربیونل میں جب میں سربراہ تھا گیارہ برس میں ایک شکایت بھی نہیں آئی کیا وکلا اتنے پارسا ہو گئے ہیں ایسا نہیں؟ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔

اور جوڈ یشری کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ملازمتوں کی فراہمی میں عدالت نے میرٹ پر کمپرومائز نہیں کیا ہے اور نہ ہی آئندہ کرنا ہے جس کسی کا حق بنتا ہے اسے دیا جائے گا انہوں نے مقررین کی جانب سے عدالت عالیہ کے حالیہ جراتمندانہ فیصلوں کی ستائش کے جواب میں کہا کہ ہم نے ایسے فیصلے کر کے کسی پر احسان نہیں کیا۔

ہم نے حتی الامکان اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کیے ہیں تقریب کے باقاعدہ آغاز سے قبل چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے نئے جوڈیشل کمپلیکس کے سنگ بنیاد کا افتتاح کیا۔

اس موقع پر قبائلی عمائدین کی جانب سے چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ محمد نور مسکانزئی چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جمال خان مندوخیل کو قبائلی بلوچی ٹوپی و دستار بھی پہنائی گئی۔

اور سوینئر بھی پیش کیا گیا تقریب سے رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ اور اراکین صوبائی اسمبلی ملک نصیر شاہوانی احمد نواز بلوچ نصراللہ زیرے شکیلہ نوید دہوار صدر ڈسٹرکٹ بار کوئٹہ محمد اقبال کاسی اور نائب صدر سریاب زون تنویر اسلم شاہوانی نے بھی خطاب کیا۔