کوئٹہ: بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کا احتجاج دسویں روز بھی جاری رہا حکومت اور مظاہرین کے درمیان ڈیڈلاک برقرار، تفصیلات کے مطابق بدھ کو کوئٹہ کے عبدالستار ایدھی چوک پر بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کا تنخواہوں میں 25فیصد ڈسپیرٹی الائونس کی فراہمی سمیت 19نکاتی ایجنڈے کی منظور ی کے لئے دھرنا دسویں روز بھی جاری رہا ملازمین کی جانب سے عبدالستار ایدھی چوک سے ریلی بھی نکالی گئی۔
جو انسکمب روڈ، جناح روڈ، سرکلر روڈ ہوتی ہوئی واپس عبدالستار ایدھی چوک پر اختتام پذیر ہوئی جبکہ دھرنے میں خصوصی افراد نے بھی شرکت کی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے کنوینئرعبدالمالک کاکڑ، داد محمد بلوچ، حبیب الرحمن مردانزئی ، عبدالسلام زہری، ماما عبدالسلام بلوچ نے کہا کہ ہماری کوئی ضد ہے نہ انا ہے ہمارے مطالبات تسلیم کئے جائیں تو ہم چلے جائین گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک ہی وژن اور ایجنڈا ہے ہمارے مسائل حل کئے جائیں ہم بات چیت کے لیے بیٹھے ہیں جو بھی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ہم ہمہ وقت تیار ہیںہم نے جتنا لچک کا مظاہرہ کیا جتنا صبر کیا یہ اتنا ہی ہمیں مجبور کیا جارہا ہے ہم حیران ہیں کہ کبھی خزانہ خالی ہے کبھی خزانہ بھر جاتا ہے جام صاحب آپ پر واضح کرنا چاہتے ہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب تک نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا جاتا یہ دھرنا کسی صورت ختم نہیں ہوگا ہمارے عزائم مضبوط ہیں یہاں تراویح پڑھ کر دکھائیں گے،انہوں نے کہا کہ مذاکرات مثبت سمت میں بڑھ رہے تھے۔
پرسوں رات کو اچانک نہ جانے کیوں کس کے کہنے پر معاملات آگے نہ جا سکے پورے بلوچستان کا نظام جام ہوگیاہے اب بال حکومت کے کورٹ میں ہے ہم حکومت کے جواب کے انتظار میں ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو وزراء کی کمیٹی بنائی ہے انہوں نے تو ہم سب رابطہ ہی نہیں کیا اور جو سیکرٹریز کی کمیٹی بنائی تھی اس کے ساتھ مسلسل مذاکرات کر رہے ہیںملازمین حلفیہ بتاتے ہیںکہ رمضان میں افطاری بھی ادھر کریں گے ۔
عید کے لیے نئے کپڑے بھی نہیں خریدیں گے اور جب تک مطالبات تسلیم نہیں ہونگے یہ دھرنا ادھر جاری رہے گا،دوسری جانب حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات میں کسی بھی قسم کی پیش رفت نہیں ہوسکی جسکی وجہ سے بلوچستان میں سرکاری مشنری ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے جبکہ کوئٹہ شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہونے کے ساتھ ساتھ معمولات زندگی بھی بری طرح متاثر ہیں ۔