کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بینچ نے ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان و دیگر کے خلاف دائر آئینی درخواست میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 14 ملزم کو دوران تفتیش بیعزت کرنے گالم گلوچ یا تشدد کا نشانہ بنانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دیتا بلاشبہ نیب کے افسران کرپشن میں ملوث ایسے افراد سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔
جن میں سے کئی ایک کو بعد ازاں ٹرائل کے بعد عدالتوں سے مجرم بھی ٹھہرایا جا تاہے لیکن مذکورہ دفعہ آئین کے باب 1 حصہ دوئم میں موجود آدمیت کے وقار سے متعلق وہ واحد غیر مشروط ضمانت ہے جو قانون کے تابع نہیں ہے معزز عدالت نے مزید کہا کہ کسی بھی شہری کا یہ بنیادی حق جب بھی غضب ہو گا یا اس کی شکایت کی جائے گی تو عدالت ضرور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مداخلت کرے گی۔
اور قانون و انصاف کے مطابق فیصلہ کرے گی یہ آئینی درخواست ڈیرہ بگٹی کے ایک تاجر کی جانب سے محمد ریاض احمد ایڈوکیٹ نے دائر کی تھی تاجر کے خلاف ایک پرائیویٹ شکایت کنندہ نے نیب میں شکایت کی تھی کہ مذکورہ تاجر ڈیرہ بگٹی کے سوئی نالہ سے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی این او سی کے بغیر ریت نکال رہا ہے جو کہ بلوچستان مائنز اور منرل رولز 2000 کے دفعات کی خلاف ورزی ہے۔
جس پر29 جنوری 2021 کو نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن انیس کے تحت نیب حکام کی جانب سے درخواست گزار کو پیش ہونے کا نوٹس موصول ہوا درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ اگرچہ مندرجہ بالا الزام سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں لیکن نیب حکام کی جانب سے گرفتاری کے خوف سے اس نے پٹیشن دائر کی درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ میرے مؤکل سے اس طرح کے سوالات کیے گئے ہیں ۔
جس سے اس کا وقار مجروح ہوا ہے اور انہیں ٹارچرنگ اور ہراسیگی کا سامنا کرنا پڑا ہے حالانکہ یہ محض ٹیکس چوری اور مائیننگ رولز کی خلاف ورزی کا کیس بنتا ہے اس پرعدالت عالیہ کی جانب سے نیب کو نوٹس بھجوایا گیا جنھوں نے درخواست گزار کے دعوے کے جواب میں بیان حلفی جمع کرایا ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے دائر پٹیشن کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ درخواست گزار کو نوٹس بھجوایا گیا تھا ۔
اور اسے کچھ کاغذات فراہم کرنے کا کہا گیا ہ کیونکہ وہ حکومت کو سرفیس رینٹ ادا کئے بغیر ڈیرہ بگٹی کے سوئی نالہ سے ریت نکال کر لے جا رہا تھا جب کہ اس کی گرفتاری کیوارنٹ نہیں جاری کیے گئے تھے عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہاں ضروری بات یہ ہے کہ درخواست گزار پرائیویٹ فرد ہے اور وہ پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں اور اس کے خلاف کارروائی بھی غیر سرکاری/ پرائیویٹ شکایت کنندہ کی شکایت پر شروع کی گئی۔
اس ضمن میں شکایت کنندہ کی جانب سے بد نیتی اور ممکنہ غلط الزام کا عنصر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی مزید تفتیش کی جانی چاہیے تھی معزز عدالت نے درخواست گزار کے بیان حلفی کابھی جائزہ لیا جس میں درخواست گزار سے کئے گئے سوالات کی تفصیل پیش کی گئی تھی معزز عدالت نے ریمارکس دیتیہوئے کہا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ کئی کیسز میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور تفتیشی افسران جنھیں شہریوں کی حفاظت کی ڈیوٹی دی گئی ہے۔
وہ بذات خود غیر انسانی سلوک میں ملوث ہوجاتے ہیں جس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آیا ایسے افسران کو تفتیش جیسی اہم و مقدس ڈیوٹیاں دی جانی چاہییں جن کے دل میں انسانیت کے لیے کوئی عزت نہیں ہے ”زندگی محض زندگی گزارنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ایک ایسی با معنی زندگی ہے جسے وقار کے ساتھ جیا جاسکے(PLD1994SC693) ”یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی بھی حیثیت میں اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کو بد نام کرے اس کی ذلت کرے یا اس کی حیثیت گھٹانے کی کوشش کرے اور خاص طور پر نیب کے افسران جنھیں وائٹ کالر کرائمز کی تفتیش کا فرض سونپا گیا ہے۔
انھیں کسی بھی شخص کے وقار کو مجروح کرنے اس کی شہرت کو نقصان پہنچانے اور زندگی کو بے وقعت کرنے کی اجازت نہیں نیب کے متاثرین کو جو غیر انسانی سلوک بھگتنا پڑتا ہے وہ حکومت پاکستان آئین پاکستان کے آرٹیکل 14 اور ملک کی اعلی عدالتوں کی جانب سے بار بار کی ہدایت اور کنونشن کی خلاف ورزی ہے حالانکہ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان نینا مناسب اور پر تشدد طریقہ تفتیش پر نیب کو تنبیہ بھی کی ہے۔
لیکن یہ امر باعث تشویش ہے کہ فرد کے وقار کا حق جو اسے باحیثیت پاکستانی شہری کے حاصل ہے وہ واحد حق ہے جو کسی بھی قانون کے تابع نہیں تاہم اسے ہی سب سے زیادہ بدسلوکی کانشانہ خاص طور پر ریاستی عہدیداران کی جانب سے بنایا جاتا ہے معزز عدالت نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کا حلفیہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ تفتیشی افسر نے یا تو اپنی مجرمانہ ذہنیت کی بنا پر غیر ضروری و توہین۔
آمیز سوالات درخواست گزار کو ٹارچر اور بیعزت کرنے کے لئے پوچھے ہیں یا پھر تفتیشی آفیسر ان اداب سے نا آشنا ہیں جس کے تحت کوئی انکوائری یا تفتیش کی جاتی ہے عدالت نے فیصلہ کی کاپی ڈی جی نیب بلوچستان کو ارسال کرنے کے احکامات دیے تاکہ وہ اس معاملے کو بذات خود دیکھیں اور وہ مذکورہ کیس کی ایک اہل خودمختار اور دیانت دار آفیسر سے شفاف تفتیش کے لیے ضروری اقدامات کو یقینی بنائیں۔