|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2021

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ آئین کو پچاس سال ہوچکے قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ آئین جمہوری اور اسلامی ہوگا ہم نے آئین سیکھا نہ ہی صحیح ترجمہ کیاہم نے آئین کے ساتھ وہی سلوک کیا جو قرآن پاک کے ساتھ کرتے ہیں ہم آئین کو بھی غلاف میں محفوظ کرکے اونچی جگہ رکھ دیتے ہیں، محافظین آئین نے ہی آئین کے تحفظ کی قسم توڑی۔

اگر ہم آئین شکنی کریں گے تو یہ غداری کے زمرے میں آئے گا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے گذشتہ روز اسلام آبادہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں اپنے لیکچر کے دوران کیا، اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر زاہد محمود راجہ اور دیگر عہدیداران کے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد بھی موجود تھی،جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ میری اہلیہ نے کراچی کیا۔

مریکن سکول میں پڑھایا،وہ کبھی کبھار کتابیں ساتھ لے آتیں جو ہم دیکھتے تھے کہ وہاں بھی آئین پڑھایاجاتاہے، سیکھتا وہی ہے جو ہمیشہ طالب علم اہنے آپ کو تصور کرے،ہم نے نہ آئین پاکستان سیکھا اور نہ ہی آئین کا ترجمہ پڑھا،مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی اسکول میں آئین پاکستان پڑھایا جاتا ہے، امریکہ کے سکولوں میں آئین سکھایا جاتا تھا تاکہ کم عمر سے ہی طلباء کو آئین کا معلوم ہو،آئین پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ پڑھ کر ہی ہمیں معلوم ہوگا کہ پاکستان کیسے وجود میں آیا،ہمارے پاس اس وقت نصف پاکستان ہے کیونکہ 47ء میں آئین جدا ہو چکا۔

ہم سے،مسلمان کی آبادی کے حساب سے پہلے نمبر پر انڈونیشا، دوسرے پر بھارت اور پاکستان اب تیسرے نمبر پر آ کھڑا ہے،لوگوں کی ہوس نے آئین کو ٹھکرایا اور محافظ آئین کرنے والوں نے قسم توڑی،ہمارا آئین انگریزی میں ہے اور اس میں لکھاہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہیلیکن آئین کی تشریح بھی انگریزی میں ہی ہے جس کو آسان اردو میں ہوناچاہیے تاکہ عام آدمی بھی سمجھ سکے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ محافظین آئین نے قسم توڑی اور آئین کا تحفظ نہیں کیا ،قائد اعظم نے فرمایا کہ اسلام میں سب برابر ہیں اور عدل وانصاف کا بول بالا ہونا چاہیے، پاکستان کا آئین ہر شہری کو تحفظ دیتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں،مسلم لیگ کا جھنڈا سبز اور اس پع چاند اور تارا تھا لیکن پاکستان کے جھنڈے میں سفید پٹی بھی ہے۔

مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کو بھی انصاف مہیا کرے،اگر ہم آئین شکنی کریں گے تو یہ غداری کے زمرے میں آئے گا،آئین سے غداری کرکے نہ صرف اس جہاں بلکہ اگلے جہاں میں بھی اس کی سزا ملے گی،اگر آئین کو ہٹا دیں تو وفاق بھی ٹوٹ جاتا ہے اور پاکستانیت بھی ختم ہو جاتی ہے،آئین کا تحفظ کرنا ہر پاکستانی پر لازم ہے اس لیے اس کا تحفظ کریں،ہمارے آئین کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی کہ پورے عالم پر اختیار اللّہ کا ہے۔

ریاست میں اختیار کااستعمال عوام کے منتخب نمائندوں کاہے،آئین میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو زندگی جینے کے مکمل مواقع دیے جائیں گے، اسلام میں ہے کہ دس بچوں کو پڑھنا سکھاو اور رہائی پاؤ،دفعہ13 کسی ایک جرم پر ایک سے زائد دفع سزا دینے کے خلاف تحفظ دیتی ہے، قدرت کا نظام ایسا ہے جس شخص کو دنیا میں سزا ملے اسے آخرت میں سزا نہیں دی جائے گی۔

قرآن مجید میں آزاد انسان کو غلام بنانے کی اجازت نہیں دی گئی،اسلام میں جبری مشقت کی کوئی اجازت نہیں ہے،اسلام نے مزدوروں کے تحفظ پر خصوصی زور دیا،اسلام میں ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کو اس کا معاوضہ دیا جائے، پاکستان کا آئین اور اسلام بلکل ساتھ ساتھ چل رہے ہیں،اکثر احادیث میں زکر ہے کہ کئی لوگ اپنا جرم خود آکر قبول کرلیا کرتے تھے۔

گھر کی رازداری کے حوالے سے بھی کئی آیات اور احادیث ہیں، بدگمانی سے بھی بچنا چاہیے اور ایک دوسرے سے حسد اور بغض نہیں کرنا چاہیے، دفعہ 24 کے مطابق کسی کو زبردستی اس کے مال سے محروم نہیں کیا جائے گا، دفعہ 26,27,28 امتیازی سلوک کے مختلف پہلوؤں کی ممانعت کرتی اور تحفظ فراہم کرتی ہیں،اسلام نے بھی مسلمانوں کو اجتماعیت کا درس دیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں ایک بری بات ہے کہ ہم صفائی کرنے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے،نبی پاک اپنے گھر کی صفائی خودصفائی کیا کرتے تھے، پاکستان میں دریائے انڈس دیکھا جائے تو اس میں کوڑا کرکٹ نظر آئے گا،ایک صاحب آتے ہیں آئین ادھر کر دیتے دوسرے آتے تو ادھر کر دیتے،ہم ںتا دیں کہ آئین کے ساتھ غداری نہیں کی جا سکتی، اسلامی نظام آ چکا ہے۔

اب صرف اس پر عمل کرنے کی دیر ہے،آئین کو زندہ آئین پر عمل کرانا ہمارے فرائض میں شامل ہے،معاشرہ ہر طرح زندہ رہ سکتا لیکن عدل کے بغیر نہیں زندہ رہ سکتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اسلام کا مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ ہمیشہ حق بات کہیں،اگر ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو دیگر برے کام بھی ہم ڈے چھوٹ جائیں گے،مرد سے اس کی آمدن نہیں پوچھی جا سکتی۔

لیکن مجھ سے آپ پوچھ سکتے کیونکہ میں پبلک آفس ہولڈر ہوں،اسلام کا نظام برابری کا ہے جس میں تمام انسان برابر ہیں،اقراء کا لفظ عمل کرنے کے زمرے میں آتا ہے یعنی کہ پڑھو،مسلمان کیلئے اللہ کا پہلا حکم یہی ہے کہ علم حاصل کرو، میں سوال پوچھتا ہوں کہ پاکستان میں سو فیصد لیٹریسی ریٹ کیوں نہیں ہے؟مغرب کی مثال نہیں دیتا، سری لنکا میں بھی لٹریسی ریٹ سو فیصد ہو ۔