ملک میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی مجموعی شرح 18.43 فیصد تک پہنچ گئی۔وفاقی ادارہ شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 18 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ رپورٹ کے مطابق زندہ مرغی، آلو، ٹماٹر، دودھ، گھی، مٹن، خوردنی تیل اور دہی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ایک ہفتے کے دوران 13 اشیا ء کی قیمتوں میں کمی ہوئی جبکہ 20 اشیا ء کی قیمتوں میں استحکام پایا گیا ۔
زندہ مرغی کی فی کلو قیمت میں 27 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا جبکہ آلو کی فی کلو قیمت میں بھی 3 روپے 87 پیسے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد فی کلو قیمت 43 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ٹماٹر کی فی کلو قیمت بھی 3 روپے 33 پیسے بڑھ گئی جس کے بعد فی کلو قیمت 48 روپے ریکارڈ کی گئی ۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دودھ، گھی، مٹن، خوردنی تیل اور دہی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ چینی کی فی کلو قیمت میں 2 روپے 90 پیسے کمی ہوئی ۔رپورٹ کے تحت گزشتہ ایک ہفتے کے دوران لہسن، انڈے، دال ماش اور ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔
وفاقی ادارہ شماریات کی جائزہ رپورٹ سے دو دن قبل ہی وفاقی سیکریٹری خزانہ نے وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر کی سربراہی میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں دعویٰ کیا تھا کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے اعلیٰ سطحی اجلاس کو اس حوالے سے باقاعدہ بریفنگ بھی دی تھی۔حکومتی وزراء کی جانب سے ہربار یہ دعویٰ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ملک میںمہنگائی کی شرح کم ہورہی ہے اور حکومت اپنی تمام تروسائل لگارہی ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کیاجاسکے مگر ہرہفتے جو اعداد وشمارجاری ہوتے ہیں وہ حکومتی وزراء کے دعوؤںکے برعکس ہی نکلتے ہیں۔
ملک میں پہلے سیاسی کشیدگی کے باعث مہنگائی کامسئلہ دب کررہ گیا تھا اور تمام تر توجہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی پر مرکوز تھی مگر ملک کا بنیادی مسئلہ مہنگائی کا ہے جس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے، بارہا اس جانب حکومتی توجہ مبذول کرائی جاتی رہی ہے کہ ملک میں جس طرح کی معاشی پالیسی چل رہی ہے اس سے مہنگائی کوکنٹرول کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف کے شرائط جو قرض کی بنیاد پر پورے کرنے ہیں اور اسی طرح ٹیکس لاگو کرنا ہے تو کس طرح سے اس مسئلہ سے نمٹا جائے گا۔
ماضی کی غلط پالیسیوںپر تنقید کرنے سے موجودہ معاشی مسائل سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا ۔ حکومت نے تین سال گزار دیئے مگر معاشی صورتحال میں بہتری نہیں آئی گوکہ اس دورانیہ میں کورونا جیسی وباء بھی سامنے آئی اور اس سے بہت سے ممالک معاشی طور پر دیوالیہ ہوکر رہ گئے مگر ہمارے یہاں صورتحال یکسر مختلف ہے ۔جب قرضوں کی بیساکھیوں کے ذریعے معیشت کو چلایاجائے گا تو نتائج مثبت کسی صورت برآمد نہیں ہونگے کیونکہ ماضی میں بھی تو قرضے لیکر ہی معیشت کی پہیہ کو چلایا گیا تو گزشتہ اور موجودہ دور حکومت کی پالیسیوں میں فرق کیا ہے۔
ملک گزشتہ کئی ادوار سے معاشی چیلنجز کا شکار ہے اور اس کا مستقل حل اب تک نہیں نکالاجاسکا ہے محض دعوؤں کے ذریعے حکمرانوں نے عوام کو طفل تسلیاں دی ہیں جبکہ مہنگائی کے باعث عوام کی چیخیں نکل چکی ہیں، اب تو صورتحال یہ ہے کہ لوگ روزمرہ اشیاء کی ضرورت بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ہرچیز کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ لہٰذا حکومت معاشی پالیسی کو بہتر سمت لے جانے کیلئے قرضہ لینے پر زور دینے کی بجائے پیداواری قوت کو بڑھائے تاکہ ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے وگرنہ قرض کی پالیسی مزید معاشی بحرانات کا سبب بنے گی۔