|

وقتِ اشاعت :   April 11 – 2021

جہانگیر ترین کیخلاف ہونے والی انکوائری کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کے بعض منتخب نمائندگان کا متحرک ہوکر جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہونا اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ پی ٹی آئی اندرون خانہ اختلافات کا شکار ہے جس کی تردید پی ٹی آئی میں شامل کچھ حلقے ضرور کریں گے مگر جہانگیر ترین کی پیشی اور عشائیہ میں شرکت کرنے والے ایم این ایز اور ایم پی ایز چھپ کا روزہ تھوڑتے ہوئے میڈیا پر آکر اس بات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں کہ جہانگیر ترین کو ہدف بناکر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس میں وہ شخصیات شامل ہیں جو پی ٹی آئی کو تقسیم کی طرف نہ صرف دھکیلنا چاہتی ہیں ۔

بلکہ وہ پی ٹی آئی کے باقاعدہ منتخب نمائندگان بھی نہیں ہیں جو پیرا شوٹ کے ذریعے پارٹی میں آئے ہیں۔ بہرحال جہانگیر ترین اس وقت کیسز کا سامنا تو کررہے ہیں مگر ساتھ ہی سیاسی پاور کا مظاہرہ بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں جہانگیر ترین نے جس طرح سے وزیراعظم عمران خان کو پیغام دیتے ہوئے یہ کہا کہ سازشی عناصر کو بے نقاب کریں جو میرے خلاف کام کررہے ہیں ۔بظاہر تو یہ پیغام لگتا ہے مگر یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ آنے والے وقت میں جہانگیر ترین اس سیاسی پاور شو کو سیاسی گیم میں تبدیل کرسکتے ہیں مگر اب تک وہ پی ٹی آئی کو اپنی جماعت قرار دے رہے ہیں ۔

اور جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے نمائندگان بھی یہی بات دہرارہے ہیں لیکن شہلا رضا کی ٹوئٹ اور اس کے بعد اسے ڈیلیٹ کرنا بعض معاملات کی جانب اشارہ دے رہا ہے کہ پیپلزپارٹی اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ جہانگیر ترین کو اپنے ساتھ ملاکر پنجاب میں سیاسی طاقت حاصل کرسکے کیونکہ اس وقت پیپلز پارٹی پنجاب میں زیادہ اثر نہیں رکھتی اور اپنی پوری کوشش آصف علی زرداری ضرور کرینگے کیونکہ زرداری کو سیاست کے میدان میں گیم چینجر بھی کہا جاتا ہے ۔بات یہاں آکر رک جاتی ہے کہ جہانگیر ترین پیپلزپارٹی کے ساتھ جائیں گے۔

، پی ٹی آئی کے ساتھ رہتے ہوئے منتخب نمائندگان کے ذریعے اپنا دباؤ برقرار رکھیں گے یا پھر اپنی الگ جماعت کی تشکیل کی طرف جائینگے کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلانے میں جہانگیر ترین کا کلیدی کردار تھا اور اب پی ٹی آئی کے وہ نمائندگان جو جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں وہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو اعتماد کاووٹ دلانے میں بھی جہانگیر ترین نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اس دوران وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے رابطے بحال ہوئے تھے مگر ایک سازش کے ذریعے پھر دوریاں پیدا کی گئیں۔

مگر کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی سامنے آرہی ہیں کہ جہانگیر ترین کیخلاف جاری انکوائری سے انہیں سیاسی طور پر این آر او حکومت دینا چاہتی ہے ۔بہرحال سیاسی قیاس آرائیاں اس وقت بہت ساری ہورہی ہیں مگر پی ٹی آئی کے دوحصوں میں تقسیم واضح ہوچکی ہے ۔ گزشتہ روز جہانگیر ترین کا عدالت میں پیشی کے دوران کہنا تھا کہ میری شوگر ملز کے خلاف انکوائری ضرور کریں لیکن ایسی شفاف ٹیم تشکیل دیں جو کسی کی ٹیلیفون کال پر کام نہ کرے، ہم عدالت سے بھاگ نہیں رہے، عدالت جب بھی بلائے گی پیش ہوں گے، انشاء اللہ عدالت سے سرخرو ہوں گے۔

جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر اسلام آباد میں بنی، یو ایس بی میں یہاں آئی اور اس پر دستخط ہوئے، فون کال پر ٹیم بنائی گئی، جو ٹیم تحقیقات کر رہی ہے وہ فیئر نہیں ہے۔ جہانگیرترین کا یوایس بی کا ذکر بنی گالہ کی ان شخصیات کی طرف اشارہ ہے جو وزیراعظم عمران خان کے اس وقت قریب ہیں ۔بہرحال سیاسی بھونچال آنے کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا جو چند روز میں واضح ہوجائے گا۔