پاکستان پیپلزپارٹی نے بلآخر اعلانیہ طور پر پی ڈی ایم سے اپنی راہیںجدا کرلیں۔ پہلے یہ گمان کیاجارہا تھا کہ شاید مولانا فضل الرحمان پیپلزپارٹی اور اے این پی کے ساتھ بات چیت کرکے کوئی درمیانہ راستہ نکالیں گے مگر مولاناصاحب کو بھی اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ جس طرح کی بیان بازی پیپلزپارٹی ، ن لیگ اوراے این پی کے درمیان جاری ہے اس سے اب بہت ہی مشکل ہوگا کہ پی ڈی ایم میں یہ دونوں جماعتیں واپس آجائیں اور اگر واپسی کا راستہ شوکاز کے ذریعے معافی نامہ بھیجنا تھا تو یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ پی ڈی ایم کے ایک اجلاس کے دوران آصف علی زرداری نے نواز شریف کو جس طرح سے ہدف بناکر کہا کہ نوازشریف وطن واپس آجائیں تو ہم استعفے ان کے حوالے کردینگے۔
جس کے بعد ن لیگ کی پوری قیادت کو یہ بات بری لگی اور مریم نواز تو پہلے سے ہی کہہ چکی ہیں کہ ان کے والد وطن واپس نہیںآئینگے میں یہاں پر ان کی جگہ نمائندگی کررہی ہوں کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے ۔اس کے بعد بھی جو بیانات، طنزیہ جملوں کاتبادلہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان چل رہاتھا یہ بات یقینی ہوچکی تھی کہ اب اپوزیشن اتحاد بکھرچکا ہے ،دوبڑی جماعتوں کے نکلنے کے بعد پی ڈی ایم کا اگلہ لائحہ عمل کیا ہوگا اب یہ پی ڈی ایم میںموجود جماعتوں پر منحصر ہے مگر اہم فیصلے مولانافضل الرحمان اور نواز شریف کی مشاورت سے ہی ہونگے اور پیپلزپارٹی کا شکوہ بھی ن لیگ سے ہی ہے۔ بہرحال گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سیاست عزت اور برابری کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی سے معافی مانگنی چاہیے۔ کسی پارٹی کو حق نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو ڈکٹیٹ کرے۔ کوئی جماعت کسی دوسری پارٹی پر اپنی رائے مسلط کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ کسی کو کوئی شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا جب کوئی بیرون ملک گیا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی پردبائو نہیں ڈال سکتی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں حصہ لے کر حکومت کا مقابلہ کیا۔ استعفوں سے متعلق موقف آج بھی اور آئندہ بھی وہی ہوگا۔ جب مسلم لیگ ن حکومت میں تھی ہم نے پارلیمان کو بچایا تھا آج بھی بچائیں گے۔ پی ڈی ایم میں شامل پیپلز پارٹی کے تمام عہدیدار احتجاجاََ مستعفی ہونگے۔ جمہوری تحاریک میں شوکاز کا تصور ہی نہیں ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کسی کو شوکاز نہیں دیا گیا جب سندھ میں جی ڈی اے اور پی ٹی آئی سے اتحاد ہوا۔
کہا تھا ہم پنجاب اور وفاق میں عدم اعتماد کی تحریک لائینگے تو شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا۔ دوسری جماعتوں کے کہنے پرضمنی الیکشن کابائیکاٹ کرتے توساری نشستیں پی ٹی آئی جیت جاتی۔ کسی کو شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا جب پی ڈی ایم کے ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا تھا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم اپوزیشن کاکردار ادا کریں گے اور ایک دن بھی حکومت کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔ ہمارے دروازے ہر اس جماعت کیلئے کھلے ہیں جو اس حکومت کے خلاف ہے۔ ہم جو بھی فیصلے کرینگے اے این پی سے مشاورت کے بعد لینگے۔ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف ملکر جدوجہد کریں۔ہم اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن کی سیاست کی مذمت کرتے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ کو جنہو ںنے ٹکٹ دیا ان سے پوچھا جائے، اعظم نذیر تارڑ کو نامز د کر کے اپوزیشن کی اپوزیشن کی گئی۔
مسلم لیگ ن فیصلہ کرے کہ عمران خان کی مخالفت کرنی ہے یا بلاول بھٹو کی؟اس ایک جملہ سے ہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اس وقت پیپلزپارٹی کا پورا غصہ ن لیگ پر ہے اور یہی کہاجارہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کو شوکاز ن لیگ کے کہنے پر بھیجا گیا ہے، اس کا مطلب پی ڈی ایم میںشامل دیگر جماعتوں کی خاص حیثیت نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے بہت سی جماعتیں اپنے حلقوں میں اثر رکھتی ہیں مگر مسئلہ مرکز میں تبدیلی لانے کا تھا جو ممکن نہ ہوسکا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی اپنے وعدوں کی پاسداری کرینگے جس طرح سے پی ڈی ایم کے اسٹیج پر کھڑے ہوکر مریم نواز نے کہاتھا کہ ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے۔
جتنا بھی اختلاف آپس میں ہو مگر ہم ایک دوسرے کی ذات کو نشانہ نہیں بنائینگے اور اس قدر تنقید کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھیں گے کہ جس سے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں۔ بہرحال ماضی میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے سخت ترین حریف رہے ہیں اور ایک دوسرے کیخلاف جو بیانات کی گولہ باری یا پھر سڑکوں پر گھسیٹنے سمیت انتہائی سخت لہجے استعمال کئے گئے شاید ہی کوئی جماعت ایک دوسرے پر کرتی رہی ہے ،ایسا نہ ہو کہ پی ڈی ایم بمقابلہ حکومت تو ختم ہوتا نظرآرہا ہے اب پیپلزپارٹی بمقابلہ ن لیگ کا آغاز نہ ہوجائے ۔