|

وقتِ اشاعت :   April 15 – 2021

امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں سال 11 ستمبر تک افغانستان سے تمام امریکی افواج نکالنے کا فیصلہ کرلیا۔امریکی خبررساںادارے کے مطابق امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہماری پالیسی حقائق کو مدنظر رکھ کر بنائی جارہی ہے، معاہدے کی شرائط پوری نہ ہونے کی صورت میں طالبان سے جنگ کی طرف جا سکتے ہیں۔امریکی عہدیدار کے مطابق صدر بائیڈن جنگ کو قومی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں، فوجیں نکالنے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکا افغانستان چھوڑ دے گا، افغان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلق میں رہیں گے۔

امریکی خبررساںادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر بائیڈن جلدہی اپنے فیصلے کا اعلان کر سکتے ہیں۔دوسری جانب طالبان اور امریکا معاہدے کے مطابق امریکی افواج کو یکم مئی سے پہلے افغانستان سے نکلنا ہے جبکہ گزشتہ دنوں امریکی صدر نے یکم مئی تک فوجیوں کا انخلاء مشکل قرار دیا تھا۔وہیں افغان طالبان نے معاہدے کے تحت انخلا ء نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دے رکھی ہے۔افغانستان میں 2500 سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں۔دوسری جانب ترکی میں افغانستان پر عالمی امن کانفرنس 24 اپریل سے 4 مئی تک ہوگی۔

ترک وزارت خارجہ کے مطابق استنبول کانفرنس کا مقصد دوحا کے بین الافغان مذاکرات کو آگے بڑھانا ہے۔ترک وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات افغان حکومتی نمائندوں اور طالبان نمائندوں کے درمیان ہوںگی،کانفرنس میں فریقین کو مشترکہ بنیادی نکات پر مشتمل سیاسی مفاہمت کا روڈ میپ بنانے میں مدد دی جائیگی۔واضح رہے کہ استنبول میں افغان امن کانفرنس اقوام متحدہ اور قطرکے تعاون سے ہو رہی ہے۔ جہاں تک امریکی صدر جوبائیڈن کا رواں سال11ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کافیصلہ ہے۔

تو اس میںمکمل طور پر یقین نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس سے قبل بھی امریکہ متعددبار یہ اعلان کرچکا ہے کہ وہ اتحادی افواج کے ساتھ انخلاء جلد چاہتا ہے مگر اس کیلئے ساز گار ماحول انتہائی ضروری ہے اور یہی بات پھر جوبائیڈن اپنے اسی فیصلے میں ہی دہراتے دکھائی دے رہے ہیں کہ معاہدے کی شرائط پوری نہ ہونے کی صورت میں وہ طالبان کے ساتھ جنگ کی طرف جاسکتے ہیں مگر اب تک دوحا میںہونے والے معاہدے کے باوجود بھی افغانستان میں کوئی خاص امن دیکھنے کو نہیںمل رہا۔

بلکہ دونوں اطراف سے طاقت کا استعمال جاری ہے جوکہ خود اس امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے گوکہ بعض حملوں کی تردید بھی فریقین کی جانب سے کی گئی ہے مگر بعض حملوں کی تصدیق امریکی فوجی حکام کرچکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی پالیسی میں اب تک یہ واضح طور پر دکھائی نہیںدے رہا کہ افغان امن عمل کو کس طریقے کار سے آگے بڑھایا جائے گا حالانکہ جو معاہدہ دوحا میں ہوا ہے اس میں شاید ہی کوئی ایسا نکتہ ہو جس پر جنگی ماحول یا مستقبل میںکوئی بڑا خطرہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، ہاں یہ بات الگ ہے کہ اگر عالمی طاقتوں کی نیت یہ ہے کہ وہ افغانستان کو اپنے اڈے کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے۔

اور دوسرے حریف کو زیر کرنے سمیت پورے خطے میں اپنا اثر ونفوذ اپنے اتحادی ومن پسند ممالک کے ساتھ جاری رکھیں گے تو اس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے جو کبھی بھی افغان امن عمل کا خواب پورانہیں ہونے دیں گے اور اس کا نقصان خطے میںموجود ممالک کوتو ہوگا مگر ساتھ ہی عالمی امن کیلئے بھی بڑے خطرے کا سبب بنے گا کیونکہ افغانستان میںطاقت کاتجربہ سب کے سامنے ہے، سرد جنگ اور نائن الیون سے لے کر اب تک افغانستان میں کسی بھی سپرپاور کو کامیابی نہیں ملی ہے۔

اس لئے دوحامعاہدے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے افغان امن عمل کو آگے بڑھایاجائے اور مستقبل میںافغانستان میں مداخلت کے راستے کو مکمل بند کیاجائے تاکہ افغان عوام سکون کا سانس لے سکیں اور اس خطے سے جنگ کا خاتمہ یقینی ہوجائے جو سب کے مفاد میں ہے وگرنہ جنگی ماحول دنیا کو ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیلے گا جس کا متحمل کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔