اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بلوچستان میں مدرسہ کی تعمیر میں سرکاری فنڈز کے استعمال سے متعلق کیس میں بلوچستان حکومت سے مدرسے کیلئے فنڈز دینے سے متعلق جواب طلب کر لیا۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہاکہ پاکستان میں عقیدے کے لحاظ سے تمام لوگ مسلمان نہیں، جو پیسہ مدرسے کیلئے دیا گیا وہ عوام کا ٹیکس کا پیسہ تھا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ہندو،عیسائی دیگر اقلیتیں بھی ٹیکس دیتی ہیں،مدرسہ کھولنا ایک عمدہ قدم ہے تاہم ریاست کے پیسے کے غلط استعمال سے نہیں۔ انہوںنے کہاکہ ریاست کی ذمہ داری سستا انصاف،صحت تعلیم کی سہولت دینا ہے،اس طرح تو ہندو بھی مندر کی تزہین آرائش کے لیے فنڈز مانگیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ سرکاری پیسہ سے مذہبی عمارت کی تعمیر میں آئین کی رکاوٹ ہے۔
منتخب نمائندوں کا بڑا احترام ہے،شاہراہ عوام کے پیسہ سے بنتی ہے،تختی عوامی نمائندے کی لگی ہوتی ہے۔وکیل نے کہاکہ مدرسے کیلئے فنڈز بلوچستان کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نے وزیراعلی کی مرضی سے دئیے۔
جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ایسی کوئی اسکیم بنا لیں کہ حکومت آئندہ بجٹ میں مدرسوں کے لیے فنڈز مختص کرے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ جس بھی طرح فنڈز دیے گئے، یہ غلط طریقہ ہے۔ عدالت نے کہاکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان فنڈز کی فراہمی سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں۔کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی گئی ۔