|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاہے کہ ریاست مدینہ کے 101ارب روپے خسارہ والا بلوچستان کے 18لاکھ بچے سکولوں سے محرم ہیں ،بلوچستان کے نوجوان ہنرمندی ،ٹیکنالوجی ،علم ،ملازمت سے محروم ہیں بلوچستان کے ہزاروں کلومیٹر سرحدات کی بندش، جامع معاشی حکمت عملی کا فقدان، آسمان کو چوتی بیروزگاری و غربت خوراک وتیل کی کمی نے صوبہ میں ایمرجنسی صورتحال پیدا کردیا ہے ۔

جو حکمران و میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہیں،حکومت اور یونیورسٹی تمام طلباء وطالبت جو یونیورسٹی فیس ادا نہیں کرسکتے کو خصوصی رعایت دیں اور امتحانات میں شرکت کی اجازت دیں ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا۔ ثناء بلوچ نے کہاکہ بلوچستان کے سرحدوں پر بہت بڑا انسانی المیہ ہے اور صورتحال سے لگتا ہے کہ بلوچ پاکستان کے شہری نہیں نہ ہی صوبائی اور نہ ہی مرکزی حکومت مہینوں سے جاری ۔

اس المیہ کو حل کرنا چاہتی ہے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بھوک و پیاس و بیماریوں سے دو چار ہیں۔انہوں نے کہاکہ تمام طلبا و طالبات جو یونیورسٹی کی فیس ادائیگی نہیں کرسکتے – یونیورسٹی و حکومت خصوصی فیصلہ و رعایت دے کر انہیں امتحانات میں شرکت کے اجازت دے بلوچستان یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی اداروں میں ہزاروں طالبعلم فیس و امتحانی فیس نہ دینے کے باعث تعلیم چھوڑنے پر مجبورہیں۔

کورونا کے باعث متوسط خاندان نان شبینہ کے محتاج ، بچوں کی تعلیم تو دور کی بات جبکہ صوبائی حکومت جہاز اور بلٹ پروف گاڑیاں خریدرہے ہیں ،3 سالوں میں تعلیم کے شعبہ کو جتنا نقصان بلوچستان میں ہو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا -بلوچستان میںتعلیم صحت بیروزگاری، جیسے بے شمار مسائل ہیں نہ تو اسمبلی اورنہ ہی کسی قانونی فورم کی اہمیت ہے آئے روز بلوچستان میں نئے سیاسی و انتظامی تجربے کئے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ریاست مدینہ کے 101ارب روپے خسارہ والا بلوچستان کے 18لاکھ بچے سکولوں سے محرم ہیں ،بلوچستان کے نوجوان ہنرمندی ،ٹیکنالوجی ،علم ،ملازمت سے محروم ہیں جہاں صرف جہاز ،گاڑیاں خریدی جاتی ہیں اور بے مقصد منصوبوں والی پی ایس ڈی پی ہر سال اس جیسے منصوبوں کی نذر ہو جاتی ہے بلوچستان کے ہزاروں کلومیٹر سرحدات کی بندش۔

جامع معاشی حکمت عملی کا فقدان، آسمان کو چوتی بیروزگاری و غربت خوراک وتیل کی کمی نے صوبہ میں ایمرجنسی صورتحال پیدا کردیا ہے جو حکمران و میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہیں اور یہ حالات بہت بڑے المیہ کا سبب بن سکتے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایاکہ گذشتہ 10 سالوں میں بلوچستان میں تعلیم کی شرح اور معیا بڑھنے کی بجائے 8% کم ہوکر 34% سے بھی نیچا چلا گیا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں تعلیم کی شرح 86%مقبوضہ فلسطین میں 97%شرح تعلیم ہے اور حکومت نے ایک دن بھی اس قومی ایمرجنسی پر اسمبلی میں بحث کی تکلیف نہیں کی۔