گزشتہ چند روز سے ملک کے بعض شہروں میں حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں ، ایک مذہبی جماعت کی جانب سے احتجاج کیاجارہا ہے اور اس دوران متعددافراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جن میں عام شہری سمیت سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں اور اس کے ساتھ املاک اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایاگیا جبکہ صوبوں اور اہم شہروں کی شاہراہیں بند کردی گئی ہیں جس کی وجہ سے پورانظام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ مگر یہ پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ ماضی میں بھی اس طرح کے پُرتشدد احتجاج ملک میںہوتے رہے ہیں۔
جن کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہی ہیں جنہوں نے احتجاج کی ایک ایسی روایت ڈال دی ہے کہ عام لوگوں کے ذہنوںپر تشدد غالب آچکا ہے اور ان کے سامنے ریاست اور حکومت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی گویا جنگل کاقانون ہے ریاستی رٹ ہے ہی نہیں۔ اسلام آباد کے ڈی چوک یا لاہور ماڈل ٹاؤن میں پولیس گردی ہو یہ سب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیںجنہیں مٹایا نہیںجاسکتا اور وہی تاریخ اب خود سیاسی جماعتوں کو اپنے دور حکومت میں مکافات عمل کی صورت میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کیا پی ٹی آئی نے ڈی چوک پر احتجاج کرتے ہوئے شاہراہوں کو بند کرنے سمیت سرکاری املاک کونقصان نہیں پہنچایا تھا۔
بیرونی ممالک کے سربراہان کے دورے ان کی احتجاج کی وجہ سے ملتوی نہیںہوئے تھے، چین کے صدر کا دورہ تو پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنے کی وجہ سے ہی ملتوی ہوا تھا اور اس دوران یہی باتیں کی جارہی تھیں کہ ملک کا سودا ہونے نہیں دینگے، ہم عوامی حکومت اور قانون کی بالادستی کیلئے باہر نکلے ہیں اور تمام چوراورڈاکوؤںکو ایوانوںسے باہر نکال پھینکیں گے ۔بلکہ اپنے مخالفین کیخلاف اس سے بھی زیادہ سخت لہجہ استعمال کیا گیا تھاکہ ان تمام افراد کو چوک پر لٹکایاجائے گا اور اسی طرح لاہور ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے مظاہرین کو نشانہ بنایا۔
جس میں متعدد شہری جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے اور یہ ن لیگ کی حکومت کے دور میں ہوا تھا۔ اگرپُرتشدداحتجاج اور مظاہروں کو سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال نہ کرتیں تو آج اس طرح کا ماحول ملک میں نہ ہوتا، جو اب دیکھنے کو مل رہا ہے ۔اس لئے ایسے عمل کی حوصلہ شکنی سمیت شدیدمذمت کرنی چاہئے اور حکومت اوراپوزیشن میں رہتے ہوئے ایک مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک ہر بار کسی نہ کسی جماعت کے ہاتھوں یر غمال نہ بنے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی مقاصد ومفادات اتنے عزیز ہوتے ہیں کہ اس طرح کے عمل کو اپنے مخالفین کو زیر کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جوکہ سراسر غلط ہے۔
اب سیاسی ومذہبی جماعتوں کو اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ ملک کو کس ٹریک پر لے کر چلنا ہے جہاں عوام پہلے سے ہی مصائب اور اذیت سے دوچار ہیں، اوپر سے یہ احتجاج اس کیلئے مزید مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ اس لئے عوامی مفادات کے تحت سیاست کریں جوان کے بقول منشور کا حصہ ہے ناکہ غلط سیاسی کارڈ کھیل کر ملک کو مزید بحرانات کا شکار کیاجائے۔