کوئٹہ: جوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ بلوچستان کے ترجمان نے اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ جامعہ بلوچستان پر مسلط وائس چانسلر ، خزانہ آفیسر اور رجسٹرار نے عدالت عالیہ کے واضح احکامات کے باوجود جامعہ بلوچستان کے ملازمین کوآج 15اپریل کو بھی مکمل تنخواہ کی ادائیگی نہیں کی گئی اور رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں ملازمین کو ذہنی کوفت میں مبتلا کر رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ جامعہ بلوچستان کے نا اہل اور مسلط شدہ وائس چانسلر اور خزانہ افیسر اور رجسٹرار کی عدم دلچسپی اور نااہلیت کی وجہ سے جامعہ بلوچستان مالی طور پر دیوالیہ ہوگئی تھی، نتیجتاً جامعہ کے تمام ایسوسی ایشنز نے مشترکہ طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے جامعہ کومالی اور انتظامی بحران سے نکالنے کے لئے پرامن احتجاج شروع کیا جسکے نتیجے میں صوبائی حکومت نے جامعہ بلوچستان کو 25کروڑ روپے جبکہ ایچ ای سی کی طرف سے بھی 2کروڑ 20لاکھ روپے جاری کی گئی۔
اور اپریل سے جون تک ماہوار 13کروڑ روپے تک کی ادائیگی ہوگی اور جامعہ بلوچستان کی اپنی آمدن 10کروڑ روپے سے زائد ہوگی لیکن اس کے باوجود جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر اور خزانہ آفیسر اور دیگر اعلی آفیسران نے قصدا آدھی تنخواہ ادا کی اورملازمین کو ہائوس ریکوزیشن سمیت 25 فیصد اور یوٹیلٹی الاونس اور دیگر سے محروم کیا ، بیان میں الزام عائد کیا گیاہے کہ عدالت عالیہ کو غلط بیانی پر مبنی رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔
ریٹائرڈ کنٹریکٹ آفیسرز کو فارغ کرنے کے بجائے اسکو تحفظ دیا جارہا ہے اور غیر قانونی طور پر پٹرول اور گاڑیوں کی واپسی کے بجائے معمولی کٹوتی کی گئی ہے جبکہ ڈینز جو کہ اعلی تعلیمی،تحقیقی منصب پر فائز ہیں سے پٹرول کی مد میں مکمل کٹوتی کی گئی جو کہ امتیازی سلوک اور سازشی حربہ ہیں ۔بیان میں کہا گیا کہ کہ ایک جانب ملازمین کو انکے بنیادی حق مکمل تنخواہ سے محروم رکھا جارہاہیں۔
جبکہ دوسری طرف غیر قانونی طور پر مسلط وائس چانسلر اور پرو وائس نے اپنی تنخواہ 7 لاکھ 35 ہزار روپے سے زائد کردی ہیاورایک لاکھ دس ہزار روپے ہاوس ریکوزیشن اور ماہانہ سینکڑوں لیٹرز پٹرول کی مد میں کئی گاڈیوں کیلئے لیکر شاہانہ طرز زندگی گزار رہے ہیں جو ملک کے تمام جامعات کے وائس چانسلرز سے زیادہ ہیں ۔