چمن: عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و صوبائی پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے ٹی ایل پی پر حکومت کی پابندی سے متعلق میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شروع دن سے اگر معاشرے میں انتہاء پسند سوچ اور پرتشدد نظریات کی راہ روکی جاتی تو آج ہمیں ان حالات کا سامنا ہی نہ کرنا پڑتا ۔
اسی کی دہائی میں ہمارے اکابرین بالخصوص باچاخان اور خان عبدالولی خان نے اس ملک کے پالیسی سازوں کو انتہا پسند و فرقہ ورانہ افکار و نظریات کو پھیلانے اور اس ملک کا مستقبل دا پر لگانے سے بہت منع کیا مگر ہمارے مقتدر قوتوں نے انتہا پسند و دہشت گرد نظریات کو وقت اور حالات کا تقاضہ قرار دیتے ہوئے بدبختانہ اسے اسٹریٹجک ڈپتھ قرار دیا ۔جس کا خمیازہ اس وقت ہم بحیثیت قوم بھگت رہے ہیں۔
اگر آج سے چالیس سال پہلے ہمارے اکابرین کی بات سنی جاتی یا سانحہ آٹھ اگست اور فیض آباد دھرنے سے متعلق قاضی فائز عیسی کمیشن رپورٹ پر عمل کیا جاتا تو بھی ہم بہت سارے نقصانات سے بچ سکتے تھے لیکن یہاں الٹا صحیح سمت دکھانے پر قاضی فائز عیسی ہنوز حکومتی و جوڈیشل وکٹامائزیشن سے گزررہے ہیں اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ باچاخان اور خان عبدالولی خان نے شروع دن سے پالیسی سازوں اور حکمرانوں کو خبردار کیا تھا کہ معاشرے میں انتہا پسند نظریات کو پنپنے نہ دیا جائے۔
اورملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور برتری کو یقینی بنا کر پرامن بقائے باہمی کے تحت دنیا کے ساتھ تعلقات قائم کئے جائیں اس وقت ہمارے اکابر کی باتوں کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے ان کا مذاق اڑایا جاتا رہا اور آج دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ہمارے اکابرین کا موقف اور فلسفہ ٹھیک اور مسلح جتھوں سے متعلق ہمدردی نقصانات کا باعث بنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فارسی میں کہاوت ہے کہ ہر چی دانا کند ، کند نادان ، بعدازخرابی بسیار است یعنی جو کام دانا کرتے ہیں عقل سے عاری لوگ بھی آخرکار وہی کچھ کرتے ہیں مگر تباہی اور بربادی کے بعد ۔پیارے نبی آنحضرت ﷺ ،قرآن مجید ، دین مبین اسلام کے نام پر یہاں پانچ عشروں سے جوکھلواڑ کھیلا جاتا رہا اور بالخصوص جس طریقے سے اس کھلواڑ کا مرکز پشتون افغان وطن کو بنایا گیا۔
جس سے سیکورٹی ادارے ، سیاسی و قبائلی رہنمااور علمائے کرام سمیت کوئی ایسا طبقہ نہیں جس نے نقصان نہ اٹھایا ہو اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ آج پوری دنیا ہم پرنہ صرف ہنس رہی ہے بلکہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کے ہر فورم پر ہم سے اظہار یکجہتی کی بجائے ہم سے منہ بھی موڑرہی ہے اگر بروقت اقدامات کئے جاتے ہمارے اکابرین کی باتوں کو تسلیم کیاجاتا ،پرتشدد نظریات کا پرچار روک کر عدم تشدد پر مبنی نظریات کو فروغ دیا جاتا۔
تو آج ہمارے معاشرے میں آئین وقانون کی بالادستی بھی ہوتی ،دنیا میں گرین پاسپورٹ کی بھی عزت ہوتی اور لوگ بھی ہم پر نہ ہنس رہے ہوتے ۔یا اگر گزشتہ پانچ عشروں میں جس تباہی و بربادی سے ہم بحیثیت قوم دوچار ہوئے ہرطرف آگ ہی آگ کے شعلے نظر آرہے ہیں پوری قوم مذہبی و فرقہ ورانہ طبقات میں تقسیم جبکہ فیڈریشن میں بد اعتماد ی انتہاکو چھو رہی ہے۔
جس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت تھی اور اتنی تباہی کے بعد قاضی فائز عیسی کے آٹھ اگست اور فیض آباد ھرنے سے متعلق رپورٹ کو ایک شخص کی ذات سے جوڑنے کی بجائے اسے ایک راہ سمجھ کر اس پر مستقبل میں ماضی کی تباہی اور بربادی سے بچنے کا ذریعہ بنا کر اس کے ایک ایک لائن اور لفظ پر سنجیدہ غور کیا جاتا بدبختانہ الٹا وہ گائیڈ لائن جسے اپنانے کی ضرورت تھی وہ قاضی فائز عیسی کے گلے پڑ گئی ۔
جو ایک جج ہو کر دوسروں کو انصاف دلانے کی بجائے خود انصاف کے طلبگار بن کر عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے انسان دوست نظریئے اور فکر کا ساتھ دیا ہے ہم نے بروقت آگاہ کیا تھا کہ کسی بھی مسلح جھتے کی حمایت اور سرپرستی کرنے کی بجائے ملک میں انصاف اور آئین و قانون کی پاسداری کو یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ملک میں حق و انصاف کی بالادستی اور آئین و قانون کی پاسداری کو یقینی بنا ئے اور اس ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی صلاح و مشورے کے نتیجے میں تشکیل دیئے گئے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کرائے اور یہ عہد کیا جائے کہ آئندہ کے لئے کسی مسلح جتھے کی حمایت اور ہمدردی کسی صورت نہیں کی جائے گی اسی میں ہمارے بہتر اور روشن مستقبل کا راز پوشیدہ ہے ۔