متحدہ عرب امارات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے ثالثی کے کردار کی تصدیق کر دی۔واشنگٹن میں یو اے ای کے سفیر یوسف العتیبہ کا ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع پر کشیدگی کم کروانے اور سیز فائر کروانے میں اہم کردار ادا کیا، توقع ہے ان کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا پاکستان اور بھارت شاید اچھے دوست تو نہ بن سکیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ دونوں آپس میں بات چیت تو کریں۔
عرب میڈیا کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ مذاکرات رواں برس جنوری میں متحدہ عرب امارات میں ہوئے تھے۔اس سے قبل ایک غیرملکی خبررساں ادارے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر پیدا ہونے والے تناؤ کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے اعلیٰ انٹیلی جنس افسران کے درمیان سال رواں کے پہلے مہینے میں خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ بات چیت ایک خلیجی ملک میں ہوئے ہیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی میں ہونے والے خفیہ مذاکرات کی۔
بابت اسے بھارتی دارالحکومت دہلی میں موجود انتہائی باخبر ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ بات چیت کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے فوجی تناؤ کو کم کرنا تھا۔ایٹمی طاقت کے حامل دونوں ممالک کے مابین موجود تعلقات میں مزید سرد مہری اس وقت پیدا ہوئی تھی جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے قافلے پر خود کش حملے ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس نے بدلہ لینے کے لیے پاکستان کی سرزمین پر اپنے جنگی جہاز بھیجے تھے۔پاکستان اور بھارت کے مابین گوکہ تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار تو پہلے بھی نہیں تھے۔
لیکن ان میں مزید اس وقت خرابی پیدا ہوئی جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنے کیلئے اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی۔بھارتی وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان میں مزید غم و غصہ پیدا ہوا اور دو طرفہ تجارت کا سلسلہ بند ہو گیا۔ صورتحال اس حد تک گھمبیر ہوئی کہ سفارتی تعلقات تک منقطع کرنے کی بات کی گئی۔برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دونوں ممالک کے مابین دبئی میں ہونے والے خفیہ مذاکرات سے آگاہ ذرائع نے کہا ہے کہ بات چیت کا بیک ڈور چینل کھولنے کا بنیادی مقصد آئندہ مہینوں کے دوران تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرنا ہے۔
مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ سے وجہ تنازع رہا ہے۔ کشمیر پر دونوں ممالک دعویدار ہیں۔خبر رساں ایجنسی کے مطابق بیک ڈور چینل کے ذریعے ہونے والی بات چیت سے آگاہ افراد نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بتایا کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران کے درمیان دبئی میں بات چیت ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے لیے دبئی نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس ضمن میں رابطہ کرنے پر بھارتی دفتر خارجہ نے کسی بھی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ پاکستان کے عسکری ذرائع نے بھی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
بہرحال اب تک حکومتی وعسکری حکام کی جانب سے دبئی میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے عین ممکن ہے کہ جب تک یہ اداریہ شائع ہوچکا ہو تب تک اس حوالے سے کوئی خبر حکومتی یا عسکری قیادت کی جانب سے آئے مگر اب مذاکرات اور ملاقات کے حوالے سے خبریں واضح طور پر سامنے آرہی ہیں یعنی بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے مگر اس میں شرائط کیا رکھے جارہے ہیں اور مستقبل میں پاک بھارت کس طرح کے تعلقات مضبوط طور پر استوار رکھ سکتے ہیں اور خاص کر مقبوضہ کشمیر کامسئلہ جو کہ ریاست کا اہم بیانیہ ہے۔
اس حوالے سے کیامؤقف ہوگا جو کہ انتہائی اہم اور دیرینہ مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا بھی ضروری ہے ۔یقینا جنگ ساری زندگی نہیں لڑی جاسکتی ،مذاکرات ہی واحد راستہ ہے جس سے امن اور دوستی کے راستے کھل سکتے ہیں مگر بات یہیں آکر رک جاتی ہے کہ اب تک ریاست کی کشمیر کے حوالے سے جو پالیسی اور بیانیہ رہی ہے اس کا راستہ کیسے نکالاجائے گا جو کہ عوام اور کشمیری عوام کیلئے قابل قبول ہو،یہی وہ اہم ایجنڈا ہے جس پر اب بھی سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ کس طرح سے مسئلہ کشمیر کو حل کیاجائے گا ۔
اور پھر پاک بھارت تعلقات بحالی کی طرف بہتر انداز میں جائینگے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت سمیت دیگر معاملات پر بات چیت آگے بڑھے گی۔ البتہ امن کیخلاف کوئی نہیں ہے اور سب ہی بہترین اور خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں تاکہ بعض دیرینہ مسائل جو اس خطے میں جنگی حالات کا باعث بن چکے ہیں انہیں اب حل ہونا چاہئے کیونکہ دہائیوں سے جن جنگی حالات میں یہ خطہ گِرا ہوا ہے اب تک یہاں سیاسی ومعاشی استحکام بحال ہونے میں دشواری رہی ہے ۔اسی طرح افغانستان میں بھی امن کے حوالے سے مذاکرات کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے۔
امریکہ نے فوجی انخلاء کا فیصلہ بھی کرلیا ہے تو یہ تمام معاملات مستقبل کے حوالے سے خوشی کی نوید سنارہے ہیں مگر اس سے قبل بھی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مذاکرات ہوئے ہیں اور دونوں ممالک کے حکمران ایک دوسرے کے یہاں دورے پر بھی جاچکے تھے مگر پھر کشیدگی پیدا ہوئی اور اس طرح سے معاملات پھر بگڑ گئے۔ اسی طرح افغانستان کی صورتحال ہے بات چیت اپنے منطقی انجام تک پہنچ نہیں پارہی باوجود اس کے جنگ بندی کے حوالے سے معاہدے ہوچکے ہیں مگر پُرتشدد کارروائیاں ہورہی ہیں جوکہ امن کی راہ میںسے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
البتہ اب جو بات چیت اور مذاکرات کے حوالے سے خبریں سامنے آرہی ہیں تو امید ہے کہ پاک بھارت تعلقات مثبت طریقے سے آگے بڑھیں گی اورروڈ میپ اس طرح کا ہو جو مستقل بنیادوں پر جنگی ماحول کے خاتمے کا سبب بن سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے مزید تفصیلات کیا سامنے آتی ہیں جس کے بعد اس کے مستقبل کا تعین بہتر انداز میں کیاجاسکتا ہے۔