مکران سے منسلک پاک ایران سرحدکی بندش کے باعث لوگوں کا ذریعہ معاش تباہ ہوکر رہ گیا ہے مکران سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی آبادی کا معاشی پہیہ اسی سرحد کے ساتھ جڑا ہوا ہے جب سے اس کی بندش کا معاملہ سامنے آیا ہے سیاسی ، سماجی اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید احتجاج اور ردعمل سامنے آرہاہے کہ جلد ازجلد سرحد کوکھول دیاجائے تاکہ معاشی سرگرمیاں بحال ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی بڑی تعداد جو بیروزگاری کے باعث نان شبینہ کا محتاج ہوکر رہ گئی ہے وہ ان گھمبیر مسائل سے نکل سکیں۔
گزشتہ روز بارڈر ٹریڈ ایکشن کمیٹی کے وفد نے بارڈر بندش کے مسئلے پر ڈپٹی کمشنر کیچ سے ملاقات کی اور دونوں اطراف پھنسی گاڑیوں اور تین ڈرائیوروںکی موت کے بارے میں آگاہ کیا۔ وفد نے ڈپٹی کمشنر کیچ کو بارڈر میں گاڑیوں پر پابندی اور کئی دنوں سے وہاں پھنسے ڈرائیوروں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور بتایاکہ اب تک بھوک اور پیاس سے تین ڈرائیور موت کا شکار ہوچکے ہیں جو حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے،ضلعی انتظامیہ بااختیار اداروں سے اس بارے میں بات چیت کرکے مسئلے کا مناسب حل نکالیں تاکہ تیل برداری میں حائل مشکلات دور ہوسکیں اور بارڈر ٹرید آسانی سے ہوسکے۔
ڈپٹی کمشنر حسین جان نے وفد سے گفتگو کے دوران بتایاکہ بارڈر ٹریڈ کے معاملے پر آئی جی ایف سی سے ملاقات کی ہے جنہوں نے ہمیں بہت جلد مثبت پیش رفت کی یقین دہانی کرائی ہے، امید ہے کہ آئندہ ایک دو دنوں کے اندر مسئلہ حل ہوجائے گا، بارڈر پر جتنی گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں ان کی واپسی کے لیے بھی ایف سی حکام سے بات کی ہے ،نوانو اور عبدوی بارڈر پر ہمیں پھنسی گاڑیوں کی واپسی اگلے ایک دو دنوں کے اندر کرانے کی یقین دہانی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسوسی ایشن کی مشکلات کا اندازہ ہے مگر بارڈر ٹریڈ پر کچھ دیگر مسائل ہیں جن کو سمجھنا چاہیے۔
ایسوسی ایشن ایشن کے ذمہ دار صبر اور برداشت کے ساتھ معاملات کو ڈیل کریں انتظامیہ ان کے ہر معاملے میں ساتھ ہے ،بارڈر پر تیل کی بندش سے یہاں معاشی طور پر جو بحران پیدا ہوگا ہمیں اس کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے متواتر ایف سی حکام سے اس بارے میں رابطہ ہے اور بہت جلد ہمیں مثبت اور مناسب پیغام ملے گا۔بہرحال اس تفصیلات کو یہاں بیان کرنے کا بنیادی مقصدعوام کو آگاہ کرنا ہے کہ اب تک مکران سے منسلک سرحدی بندش کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے جہاں تک بارڈر ٹریڈ ایکشن کمیٹی کی بات ہے تو مسلسل اس پر سخت احتجاج جاری ہے کہ جلد سرحد کو کھولاجائے ۔
اب جو مسائل سیکیورٹی بنیاد پر سامنے آرہے ہیں تو انہیں حل کرنے کی ذمہ داری حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی بنتی ہے کہ وہ جلد ازجلد اس مسئلے کا حل نکال کر علاقے کو معاشی بحران سے بچائیں کیونکہ اسی طرح سے اگر بندش برقرار رہی تو لوگوں کا جینا محال ہوجائے گا۔ بلوچستان ایک ایسا بدقسمت صوبہ ہے کہ یہاں پر بڑی صنعتیں اور کمپنیوں سمیت دیگر روزگار کے مواقع موجود نہیں کہ جس سے وہ استفادہ کرسکیں محض گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف میگا منصوبوں کے نام پر صرف یہی دعوے ہر حکومت کے دوران سامنے آتے ہیں کہ بلوچستان میں بہت بڑی معاشی تبدیلی آئے گی۔
خدارا اس معاشی تبدیلی کی طفل تسلیوں اور دعوؤں سے نکل کر موجودہ معیشت جوبلوچستان کے عوام کے گھروں کے چولہے بجھانے کا سبب بن رہا ہے اسے بحال کریں ۔ بلوچستان کے عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے محرومی اورپسماندگی کا شکار ہیں ان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے بجائے یہ کہ انہیں مزیدپسماندگی کی طرف دھکیلاجائے جن کے متحمل ان کے معاشی حالات نہیں ہوسکتے۔