|

وقتِ اشاعت :   April 20 – 2021

کوئٹہ: فضل بلوچ نے پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی علاقے پر جانے سے قبل اپنی اہلیہ اور بچوں سے کہا تھا کہ واپسی پر عید کی خریداری کریں گے اور روزے گھر میں رکھیں گے۔ مگر جب یہاں سے ان کی لاش واپس آئی تو ان کی اہلیہ اور کم عمر بچوں نے اپنی چیخوں سے زمین، آسمان ہلا دیا۔فضل بلوچ کی لاش کو دیکھ کر ان کی اہلیہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ آپ نے تو عید کی خریداری اور اچھے دنوں کی بات کی تھی۔

مگر آپ قرضہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اب ان بچوں کا کیا ہوگا؟صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ میں تربت کے رہائشی زبیر بلوچ کے مطابق ان کے رشتہ دار فضل بلوچ کی ہلاکت پر خاندان غم سے نڈھال ہے۔ان کے حوالے سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان ایران سرحد پر کئی روز سے پھنسے ہوئے تھے جہاں پر سخت گرمی، بھوک اور پیاس کی شدت سے وہ ہلاک ہوگئے۔بارڈر ٹریڈ یونین کے جنرل سیکریٹری سید گلزار دوست کے مطابق فضل بلوچ کی تدفین 17 اپریل کو کی گئی۔

اس سے قبل بارڈر سے تین لاشیں لائی جاچکی ہیں۔کیچ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے صدر غلام جان شمبیزی کا بھی کہنا ہے کہ ہماری اطلاعات کے مطابق بارڈر پر پھنسے ہوئے کم از کم چار لوگ گرمی، بھوک اور پیاس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ڈپٹی کشمنر کیچ حسین جان کے مطابق انتظامیہ تک یہ اطلاعات پہنچی ہیں کہ بارڈر پر چار لوگوں کی اموات ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دو کے بارے میں ہم تصدیق کرسکتے ہیں ۔

جبکہ باقی کے دعوں کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔حسین جان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا انتہائی غلط ہے کہ یہ لوگ بھوک اور پیاس کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں اور ان کی اموات کی وجوہات کچھ اور بھی ہوسکتی ہیں۔زبیر بلوچ کے مطابق فضل بلوچ تجارت کے لیے ایران جانے والی ڈاٹسن گاڑی چلاتے تھے اور 18 ہزار روپے کی تنخواہ پر بطور ڈرائیور ملازمت کرتے تھے۔

وہ عرصہ دراز سے یہی کام کر رہے تھے۔ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ان کے چار دورے لگتے تھے۔ ہر ایک ٹرپ کے بعد انھیں دو ہزار روپے اضافی ملا کرتے تھے۔کچھ عرصہ پہلے تک ان کا ہر ایک ٹرپ عموما چار پانچ روز کا ہوتا تھا۔ مگر حالیہ چند ماہ میں اس کا دورانیہ بڑھ چکا تھا۔زبیر بلوچ کے مطابق فضل بلوچ گھر سے 30 مارچ کو دشتک ضلع کیچ کے کراسنگ پوائنٹ سے ایران بارڈر جانے کے لیے نکلے تھے۔

جس کے بعد وہ ادھر ہی پھنس گئے۔ 16 اپریل کو ان کی لاش آبائی علاقے تربت پہنچائی گئی تھی۔زبیر بلوچ کا کہنا تھا کہ انھیں ڈاٹسن کے کنڈکٹر اور لاش پہنچانے والوں نے بتایا کہ فضل بلوچ اپنے ساتھ جو پانی اور خوراک لے کر گئے تھے وہ چند دنوں میں ختم ہوگئی تھی جس کے بعد وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح پانی اور خوراک کی قلت کا شکار ہوگئے تھے۔کنڈکٹر نے بتایا کہ فضل بلوچ کی حالت پانی اور خوراک کی کمی کے سبب سے روز بروز خراب ہو رہی تھی۔

15 مارچ کو میں نے دیکھا کہ وہ نڈھال ہو کر سخت گرمی میں، تپتی دھوپ میں گرے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے آواز دے کر پانی مانگا۔ جب میں پانی کی تلاش میں نکلا اور واپس آیا تو دم توڑ چکے تھے۔ ان کے ارد گرد لوگ کھڑے تھے۔ڈپٹی کمشنر حسین جان کے مطابق فضل بلوچ دمے کے مریض تھے جس کے باعث ان کی موت ہوئی۔ان کو آگے جانے کی اجازت قانونی تقاضوں کو پورا نہ کرنے پر دی گئی ہوگی۔

ایسی صورتحال میں ان کو قانونی تقاضے پورے کرنے چاہیے تھے ورنہ واپس آجانا چاہیے تھا۔سید گلزار دوست کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مکران ڈویژن کے اکثریتی لوگوں کے روزگار کا انحصار ایران کے ساتھ تجارت پر ہے۔یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان سے بھی پہلے کئی سالوں سے جاری ہے۔ بارڈر کے دونوں اطراف کے بلوچوں کے آپس میں نہ صرف روابط ہیں بلکہ رشتہ داریاں بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل تک دونوں اطراف کے بلوچوں کو ایک دوسرے کی تقریبات وغیرہ میں شرکت کی اجازت ہوتی تھی۔ دونوں اطراف کے بلوچ ایک دوسرے سے شادیاں بھی کرتے ہیں اور ان کے آپس میں کاروباری روابط بھی موجود ہیں۔مگر کچھ عرصہ قبل دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع کے بعد پاکستان نے بارڈر پر باڑ لگانے کا کام شروع کردیا تھا۔ یہ کام 80 فیصد تک مکمل ہوچکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ مکران ڈویژن کے اندر تقریبا کوئی 17 کراسنگ پوائنٹ قائم کیے گے ہیں جس میں پانچ ضلع گوادر، آٹھ ضلع کیچ اور چار ضلع پنچگور میں قائم کیے گے ہیں۔گلزار دوست کے مطابق بارڈر پر باڑ لگانے کا کام شروع کرنے کے بعد ان کراسنگ پوائنٹ سے بلوچوں کو گزرنے کی اجازت دی جاتی تھی جس کے لیے ان ہی کراسنگ پوائنٹس پر تمام گزرنے والی گاڑیوں کو راہداری دے دی جاتی تھی۔

مگر حالیہ چند ماہ سے ان کراسنگ پوائنٹ پر راہداری بہت ہی کم لوگوں کو دی گئی ہے۔پہلے روزانہ تقریبا اوسط دو ہزار گاڑیاں گزرتی تھیں۔ اب تین سے چار سو کو گزرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ جس وجہ سے گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ چکی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جو بااختیار ہوتا ہے اس کو گزرنے کی جازت مل جاتی ہے جو غریب ہوتے ہیں وہ پھنسے رہتے ہیں تاہم ڈپٹی کمشنر کیچ کا موقف ہے کہ صرف قانونی تقاضے پورے کرنے والوں کو راہداری دی جاتی ہے۔

گلزار دوست کے مطابق ضلع کیچ میں اس وقت کے عبدوئی اور دشتک جبکہ ضلع پنچگور کے جیرک اور کوردپ کے کراسنگ پوائنٹس پر لوگ بڑی تعداد میں پھنسے ہوئے ہیں اور ضلع گوادر کے تمام کراسنگ پوائنٹ بند ہیں۔غلام جان شمبیزی کا کہنا تھا کہ مکران ڈویژن کے لوگوں کے روزگار کا تمام تر انحصار بارڈر سے تجارت پر ہے۔ مکران ڈویژن میں نہ کوئی فیکٹری ہے اور نہ ہی کوئی اور روزگار کے مواقع ہیں۔

مختلف حکومتوں نے بھی اس طرف کبھی توجہ نہیں دی تھی۔’اب جب چند ماہ سے کراسنگ پوائنٹس قائم کیے گے تو بھی کم لوگوں کو آنے جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔ مگر لوگوں نے تو اپنے روزگار کے لیے آنا جانا ہے ہی۔ اگر وہ نہیں جائیں گے تو روزی روٹی کہاں سے کمائیں گے۔ جس وجہ سے اب وہاں پر گاڑیوں کی لائنیں لگ چکی ہیں او ر لوگ پھنس چکے ہیں۔’غلام جان شمبیزی کا کہنا تھا کہ ‘جن مقامات پر لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔

وہاں پر سخت گرمی ہے۔ کھانے پینے کے لیے کسی قسم کے کوئی ریستوران، چھپر ہوٹل وغیرہ نہیں ہیں۔ پانی تک دستیاب نہیں ہے۔ لوگ اپنے ساتھ چند دن کا پانی اور خوراک لے کر جاتے ہیں مگر پھسے رہنے کے باعث ختم ہوجاتا ہے۔’غلام جان شمبیزی کا کہنا تھا کہ پیاس کے ہاتھوں تنگ ہو کر لوگوں نے وہاں پر پانی کے لیے کنواں کھودنے کی کوشش کی ہے۔ قریب کی آبادیوں سے اگر ایک آدھ گاڑی پانی فراہم کردی جائے۔

تو پیاسے اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔’ٹیلی فون کے سگنل بھی موجود نہیں ہیں۔ ان کی خیر خیریت کا بھی کوئی پتا نہیں چلتا۔ کچھ لوگ ایک ایک ماہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے گھر والے کرب اور اذیت کا شکار ہیں۔’سید گلزار دوست کا کہنا تھا کہ اس وقت صورتحال بہت زیادہ خراب ہے۔ مکران ڈویژن میں مختلف کراسنگ پوائنٹس پر کم از کم دس سے بارہ ہزار گاڑیاں کئی روز سے پھنسی ہوئی ہیں۔

ہر ایک گاڑی کے ساتھ کم از کم دو لوگ موجود ہیں۔ جن کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے جبکہ گاڑیوں کی لمبی لائنوں کی وجہ سے وہ واپس بھی نہیں آسکتے ہیں۔ڈپٹی کمشنر کیچ کے مطابق دس سے بارہ ہزار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔ ان لوگوں کی تنظیموں کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہورہے ہیں۔ ان کے لیے کوشش کی جارہی ہے کہ کچھ صورتحال بہتر کی جائے۔حسین جان کے مطابق اگر لوگ وہاں پر پھنسے ہوئے ہیں تو وہاں کیوں رکے ہوئے ہیں۔ ان کو چاہیے وہ واپس آجائیں، اپنے لیے مسائل پیدا نہ کریں۔ن کا کہنا تھا کہ جب سے بارڈر پر سختیاں ہونا شروع ہوئیں ہیں۔

اس وقت سے بے روزگاری میں اضافہ ہوچکا ہے اور لوگ دربدر روزی روٹی کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔مقامی طور پر اشیائے ضرورت اور خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے کراچی تک بس کا کرایہ 500 روپے تھا مگر چند ہی دونوں میں یہ 1500 روپے تک پہنچ چکا ہے۔سید گلزار دوست کا کہنا تھا کہ مکران ڈویژن پہلے ہی نظر انداز علاقہ ہے۔

اب تو معاشی بدحالی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ بارڈر کے قریب بسنے والوں کی ضرورتیں ایران سے پوری ہوتی تھیں۔اب رمضان کے ان دنوں میں بارڈر کے علاقوں میں اشیائے خورد و نوش کی قلت ہے۔ وہاں کے مکین اپنی ضرورت کے لیے دگنے سے بھی زیادہ پیسے خرچ کر شہری علاقوں میں آتے ہیں اور شہروں سے اشیا خرید کر اپنے علاقوں میں لے جاتے ہیں۔سید گلزار دوست کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں بھی کئی اشیا کی قیمتیں دوگنی ہوچکی ہیں۔

جس سے ہر کوئی متاثر ہورہا ہے۔ لوگ تنگ آکر احتجاج پر اتر آئے ہیں۔دوسری طرف حسین جان کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے بلوچستان میں حالات پرامن ہیں۔ان پر امن حالات کے لیے بہت زیادہ قربانیاں دی گئی ہیں۔ اب سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا کام تقریبا پورا ہے جس کے بعد اس علاقے سے غیر قانونی کاروبار کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔’قانونی کاروبار کی اجازت موجود ہے۔

ہمیں ان لوگوں کے مسائل کا اندازہ ہے۔ ان کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مختلف تجاویز اور اقدمات زیر غور ہیں۔’غلام جان شمبیزی کا کہنا تھا کہ اس صورتحال پر تربت سمیت مختلف علاقوں میں احتجاج، جلسے جلوس منعقد ہوئے ہیں۔ لوگ کئی روز تک دھرنا دینے کے لیے مرکزی شاہراہوں پر نکل آئے تھے جس کے بعد تاجر برادری کے نمائندوں کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کیچ کے مذاکرات ہوئے۔

ان مذاکرات کے دوران ڈپٹی کمشنر کیچ نے 23 اپریل تک مہلت طلب کی ہے کہ وہ حالات کو بہتری کی طرف لے جائیں گے۔کراسنگ پوائنٹ سے پہلے کی طرح گزرنے اور تجارت کی اجازت ہوگئی۔ جس وہ سے احتجاج کو ملتوی کیا گیا ہے۔غلام جان شمبیزی کا کہنا تھا کہ 23 اپریل تک حالات بہتر نہ ہوئے تو اس پر مزید سخت احتجاج کے بارے میں منصوبہ بندی کی جائے گئی۔

ڈپٹی کمشنر کیچ نے تسلیم کیا ہے کہ اس سے مقامی لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان لوگوں سے بھی ہماری ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کچھ قابل عمل تجاویز سامنے آئیں تاکہ قانون کے دائرے میں مسائل کا حل ہوسکے۔

سید گلزار دوست کا کہنا تھا کہ حکومت اگر بارڈر پر ماضی کی طرح سہولتیں فراہم نہیں کرنا چاہتی تو لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع دے جس سے لوگ مطمئن ہوسکتے ہیں۔’اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ حکومت برسوں پرانے کاروبار پر پابندیاں عائد کرے، پابندیوں کے نتیجے میں ختم ہونے والے روزگار کے متبادل بھی دستیاب نہ ہوں، لوگ متاثر ہوں اور وہ احتجاج بھی نہ کریں۔’