کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ حکومت صنعتیں لگانے کی بجائے ملازمین کو بھرتی کررہی ہے پیسے کہاں سے آئیں گے ،اگر حکومت نے 31 ہزار روپے میںملازمین کے تمام ضروری یوٹیلیٹی بل پورے کردئیے تو ہم ملازمین کو جیل میں ڈالیں گے ہم کسی کے حق میں نہیں اور نہ کسی کے خلاف ہیں بس قانون کے مطابق چل رہے ہیں۔
اتنے دن ڈرامہ رچایا گیا عدالت کا وقت ضائع ہوا ایسے کیسے درخواست واپس لے سکتے ہیںدرخواست گزار رجسٹرار آفس میں درخواست دیں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں فیصلہ کریں گے ۔یہ ریمارکس انہوں نے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے دھرنے سے متعلق وکلاء تنظیموں کی جانب سے دائر کردہ آئینی درخواست کے دوران دئیے ، پیر کو بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس دھرنا کیس کی سماعت چیف جسٹس جمال مندوخیل۔
اور جسٹس کامران ملاخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران ایڈیشنل چیف سیکرٹری ، بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے قائدین ، وکلاء سمیت دیگر عدالت میں پیش ہوئے، سماعت میں حکومت کی جانب سے مختلف محکموں کے ملازمین کی گریڈ کی سطح پر تنخواہوں کی رپورٹ پیش کی گئی ، اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ پولیس اہلکار کو کم اور سیکرٹریٹ ملازم کو زیادہ تنخواہ دی جارہی ہے۔
تمام ملازمین حکومت کے بچے ہیں کسی کو کم یا کسی کو زیادہ تنخواہ کیوں مل رہی ہے انہوں نے کہاکہ کہ ایک اضافی تنخواہ کی ادائیگی کا اختیار ہے تو ٹھیک اگر نہیں ہے تو کیوں نہ یہ کیس نیب کو ریفر کریں دوران سماعت اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم صورتحال دیکھ رہے ہیں اور کوشش ہے کہ 25 فیصد الاونس کی ادائیگی کرسکیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سرکار کا خزانہ ہے دینا چاہتے ہیں تو دیدیں۔
ہمیں اعتراض نہیںدرخواست گزار اقبال کاسی اور نصیب اللہ ترین نے کہا کہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے یقین دہانی کے بعد آئینی درخواست واپس لی جائیگی ہم نے درمیان کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کیس فائل کیا تھا تاکہ مسئلہ ہو سکے لیکن ہمارے کیس سے محسوس ہورہا ہے کہ ملازمین کی دل آزاری ہوئی ہے دونوں فریقین کی جانب سے معاملات کسی حد تک بہتر ہوگئے ہیں۔
لہذا درخواست واپس لیں گے جس پر چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ابھی ایک نکتہ ختم ہوا ہے باقی تو ہیں کیوں آئینی درخواست ختم کریں،درخواست گزار نے کہا کہ دھرنا ختم ہوچکا ہے اور حکومتی نمائندوں نے یقین دہانی کرائی ہے تو سمجھیں مسئلہ حل ہے چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس طرح درخواست واپس نہیں لے سکتے رجسٹرار آفس میں درخواست دیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے روشنی میں درخواست واپس لینے پر فیصلہ اور حکم جاری کرینگے انہوں نے کہا کہ اتنے دن ڈرامہ رچایا گیا عدالت کا وقت ضائع ہوا ایسے کیسے درخواست واپس لے سکتے ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکومت فنڈز کی کمی کا رونا رو رہی ہے اور کروڑوں روپے مالیت کے گاڑیاں خریدی جارہی ہیں ،جسٹس کامران ملا خیل نے کہا کہ حکومت نے 60 ہزار لوگوں کو بھرتی کرنے کا اشتہار بھی دیا ہے۔
پیسے ہیں ہی نہیںچیف جسٹس نے کہا کہ حکومت صنعتیں لگانے کی بجائے ملازمین کو بھرتی کررہی ہے پیسے کہاں سے آئیں گے حکومت ملازمین کو تنخواہ نہ دے بس ضروریات پوری کرے جس میں یوٹلیٹی بلز شامل ہیں اگر حکومت نے 31 ہزار روپے میں تمام ضروریات پورا کیں تو ہم ملازمین کو جیل میں ڈالیں گے لوگ ہم پر شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید ہم ملازمین کے خلاف یا حکومت کے حق میںانہوں نے کہا کہ ہم کسی کے حق میں نہیں اور نہ کسی کے خلاف ہیں۔
بس قانون کے مطابق چل رہے ہیںحکومت نے جس کو جتنا زیادہ الائونس دینا ہے دے ہمیں کوئی اعتراض نہیں جج کی تنخواہ کوئی نہیں روک سکتا لیکن مجھے فکر ان ملازمین کی ہے ملازمین کو ہماری طرف سے اجازت ہے دھرنا دیں جو بھی کریں ہمیں اعتراض نہیں ملازمین روڈ بلاک کریں،ایمبولینس روکیں، جج اور دوسرے سرکاری اعلی افیسران کو روکیں ان کی مرضی انہوں نے کہاکہ یونین کیا کیا کرتی ہے ۔
ہمیں سب معلوم ہے اور کتنا حصہ کہاں جاتا ہے وہ بھی پتہ ہے جسٹس کامران ملاخیل نے ریمارکس دئیے کہ بیوروکریٹس اس ریاست کو تباہی کی جانب لے جارہے ہیں یونینز ویلفیئر کیلئے کام کررہی ہیں۔
یا بلیک میلنگ کرتی ہیںچیف جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملازمین ڈیوٹی نہیں دیتے اور تنخواہیں لیتے ہیں ملازمین یونین کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ڈیوٹی نہیں کرتے حکومت نے سول سیکرٹریٹ اور دیگر محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں میں فرق کیوں رکھاہے ،بعدازاں عدالت نے سرکاری ملازمین دھرنا کیس کی سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ۔